بجلی بلوں اور پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے جب عوام کی چیخیں نکلوا دیں اور حکومت پر اضافہ واپس لینے کادباؤ بڑھا تو حکومتی ذمہ داروں کے کانوں پر جوںرینگی اورادارے متحرک ہوئے ۔ بجلی چوروں گیس چوروں اور دیگرما فیا ز جن میں کھا د چینی اور دیگر اجناس کے ذخیرہ اندوز اسمگلرزکا حوالہ ہنڈی کا کاروبار کرنے والے شامل تھے ان کےگرد گھیرا تنگ کر دیا گیا اور ان کی سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جارہاہے جس کے نتا ئج حکومتی ذمہ داران میڈیا کی وساطت سے عوام کو بتارہے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر تو بہتر ہورہی ہے مگر اس کے ثمرات ابھی تک عوام کو منتقل نہیں ہورہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اداروں کے متحرک ہونے سےمہنگا ئی پر قا بو یا یا جا سکتا ہے تو یہ اقدامات پہلے کیوں نہ کیے گئے۔ بطور قوم ہماری یہ عادت بن چکی ہےکہ جب تک مسائل >اپنی آخری سطح کو نہ چھو لیں ہم اُن کے تدارک کیلئے کچھ نہیں کرتے ۔ ہمارے افسران اور کارکنان ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں اور ان کومانیٹر کرنے والے بھی اپنے فرا ئض پر توجہ نہیں دیتے ۔ اب ہر مسئلے کے حل کیلئےوزیر صاحب یا وزیر اعظم نے تو نہیں آنا یا اس کیلئے ان کا حکم تو درکار نہیں ہے مگر عملی طور پر سرکاری اداروں کا نظام جمو د کا شکار ہو چکا ہےاور اس کی بہتری کی کسی کو فکر نہیں۔ اگر ہم صرف بجلی چوری کا ذکر کریں تو کیا یہ ممکن ہے کہ محکمہ بجلی کے ملازمین کی ملی بھگت کے بغیر کوئی بجلی چوری کرسکے؟۔وزیر توانائی کے بیان کے مطابق بجلی چوروں سے 16 ارب روپے وصول کئے گئے ہیں،یہ صرف ایک ماہ کی کارکردگی کی وجہ سے ممکن ہوا ۔ اب اداروں کے آفیسرز ودیگر عملہ متحرک ہواہے تو غیر قانونی ذریعے سے بجلی استعمال کرنے کے تمام ذرائع منقطع ہو گئے ہیں۔حیرت ہے کہ یہ اقدام پہلےکیوں نہ کیے گئے۔ جس محکمے کا کام بجلی کی چوری ، اس کا غلط استعمال روکنا تھا۔ اس کے اہلکار اپنا فرض ادا کرنے کی بجائے بجلی چوری کروا کے دام کھرے کرتے رہے اور اب لوگوں مقدمے بنا کر خود صاف بچ نکلنےکی کوشش کر رہے ہیں۔ بجلی چوری کرنے والا جتنا بڑامجرم ہے اس سے بڑا مجرم بجلی کے محکمے کا وہ ملازم ہےجو بجلی چوری کرواتا اور اپنی جیبیں بھرتا تھا۔ اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں ۔ بقول وزیر توانائی جو 16ارب روپے بجلی چوروں سے وصول ہوئے ہیں وہ کس کھاتے میں جائیں گے ۔ کیونکہ محکمہ بجلی کا اصول ہے کہ جس علاقے میں بجلی چوری ہوتی ہے اس چوری شدہ بجلی کی وصولی اس علاقے کے مکینوں کے بلوں میں اضافہ کر کے پوری کی جاتی ہے۔ لہٰذا اس اصول کے تحت 16 ارب روپے کا ریلیف بھی انہیں دیا جائے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔ اسی طرح وزیر داخلہ کے بقول سمگلنگ میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے گا۔ آٹا ،کھا د، چینی، چاول اور دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کا سبب اسمگلنگ ہے ۔ غریب پاکستانیوں کی اکثریت مہنگی اشیاء خریدنے پر مجبور ہے جبکہ چند ذخیرہ اندوز ملی بھگت سے اشیاکو بارڈر پار اسمگل کر دیتے ہیں ۔خلق خدا کی داد رسی کہیں نہیں ہوتی بچوں کا دودھ ،مریضوں کی دوائی ، خوراک کیلئے انسان بے بسی سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں ۔ بقول نگران وزیر داخلہ اسمگلنگ اونٹوں پر نہیں ٹرکوں کے ذریعے ہو رہی ہے ۔ اس کے ذمہ دار وہ ادارے ہیں جو اسمگلنگ ختم کرنے کیلئے قائم کیے گئے ۔ جب آرمی چیف نے سیکورٹی اداروں کو اسمگلنگ روکنے کا حکم دیا تو پھر دوسرے اداروں کےسربراہوں کو بھی اپنے افراد کو وارننگ جاری کر دی جانی چاہیے تھی ۔ مگر دیگر تمام ادارے اسمگلنگ کے خاتمے کیلئے متحرک نظر نہیں آرہے اسی وجہ سے اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں کمی نظر نہیں آرہی۔ کراچی حب روڈ پر آئے روز بسوں میں آتشزدگی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سانحات ایرانی پیٹرول کی کراچی میں غیر قانونی منتقلی کے دوران وقوع پذیر ہوتے ہیں مگر مجال ہے کہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی ہو۔
وطن عز یز میں نظام کی بہتری کیلئے جو قابل ستائش اقدامات کیے گئے ہیں اور جن پر عمل جاری ہے ان کا تسلسل ضروری ہے۔ ملی بھگت اور غفلت کے مرتکب افراد کی سرکوبی ضروری ہے۔ اگر ان اقدامات پر صدق دل سے عمل ہوتا رہا تو پھر مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے میں مدد ملے گی۔