نگران حکومت نے آتے ہی ملک کے کئی حساس ایشوز کو چھیڑ دیا ہے حالانکہ یہ ان کے کام میں شامل نہیں۔ملک کے اہم شعبہ جات میں ترامیم اور تبدیلیاں منتخب حکومت کا ایجنڈا ہوتا ہے نگران حکومت صاف اور شفاف انتخاب کرواکے روانہ ہو جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن بھی حلقہ بندیوں میں الجھا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان مشکل میں ہے اور عوام اس سے بھی زیادہ مشکل میں ہیں ۔پاکستان غذائی بحران '،پانی کے بحران اور دیگر بحران کے ساتھ توانائی کے بحران سے بھی دو چار ہے ۔سیاسی بحران بھی کئی عشروں سے جاری ہے جس سے ملک میں عدم استحکام ہے۔بہر کیف نگران حکومت نے بجلی، گیس اور 'چینی چوروں کے خلاف آپریشن جاری کر رکھا ۔ بجلی چوری آج ہی نہیں ہو رہی ،یہ سلسہ کئی سال سے جاری ہے جس میں سیاست دان،بیوروکریسی اور کچھ اور عناصر کی پشت پناہی ہمیشہ شامل رہی ہے۔ توانائی بحران کی بہت سی وجوہات ہیں جن کو روکنے کیلئے بہت کم عمل ہوا اب نگران حکومت بجلی صارفین کو کوئی ریلیف تو نہیں دے سکتی لیکن اس نے احتجاجی مظاہروں کو روکنے کیلئے جو فارمولہ استعمال کیا اس میں وہ کامیاب ہو گئی اور احتجاجی مظاہرے رک گئے لیکن ستم یہ ہوا کہ بجلی مزید مہنگی ہو گئی ۔بجلی چوروں کیخلاف کئے جانے والے آپریشن میں اہم شخصیات بھی بجلی چوری میں ملوث پائی گئیں، ان کے کنکشنز بھی منقطع کئے گئے ان کو ڈٹیکشن یونٹس چارج کئے گئے سابق ناظم پی ایم ایل این محمد شہبازکو3126یونٹس 193000 روپے،پولیٹیکل ریلیشن ایم این اے ملک رشید، نواز ڈوگر کو 17311یونٹس900605 روپے،نمبردارحاجی منگت خان کو 1684 یونٹس75482روپے،ممبر کسان اتحاد مصطفی کھوکھر کو 1758 یونٹس 90125 روپے،ایکس کونسلر پی ایم ایل این عمر درازکو1481یونٹس 63355 روپے،پی ایم ایل این ورکرمحمد عل احمدکو982یونٹس44362روپے، پولیٹیکل ورکر اعظم جٹ کو 11250یونٹس450000 روپے، چرسی تکہ بار بی کیو ڈی ایچ اے لاہور کو5072 یوونٹس253600روپے، ریلیشن ایکس ایم این اے رانا حیات، رانا شوکت نتھے جاگیر کو 1080 یوونٹس47342روپے، نمبر دار مئیو کھڈیاں ندیم عباس کو850یونٹس28790 روپے کی رقم چارج کی گئی ہے بجلی چوروں کیخلاف آپریشنز وفاقی پاور ڈویژن کر رہا ہے حکومت بجلی چوری کے مکمل خاتمے تک بلا تفریق گرینڈ آپریشن جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے آپریشن کے دوران بجلی چوروں کے ساتھ ساتھ انکی سرپرستی کرنیوالے لیسکو افسران و ملازمین کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جا رہا ہے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بجلی چوروں کے خلاف آپریشن کا عمل نگران حکومت کو ہی کرنا تھا باقی حکومتیں کیا اپنے دور حکومتوں میں سوئی ہوئی تھیں ان کو نہیں پتہ تھا کہ بجلی کے لاکھوں یونٹ چوری ہو رہے ہیں اصل میں عوامی ردعمل کو روکنے کیلئے یہ ڈرامہ کیا گیا ہے ۔آئی ایم ایف نے 200یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو ریلیف دینے سے بھی انکار کر دیا ہے اور بجلی ابھی پھر فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میںمہنگی کر دی گئی ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق439بجلی چوروں کے خلاف ایف آئی آرز کی درخواستیں متعلقہ تھانوں میں دائر کر دی گئیں ہیں جن میں سے269 ایف آئی آرز رجسٹرڈ ہو چکی ہیں کنکشنز منقطع کرکے ان کو 7 لاکھ 27 ہزار 91 یونٹس ڈٹیکشن بل کی مد میں چارج کئے گئے ہیں جنکی مالیت3کروڑ 72لاکھ83ہزار926روپے بنتی ہے۔ کمرشل صارفین بھی بجلی چوری میں ملوث پائے گئےہیں۔ ان تمام کے کنکشنز بھی منقطع کئے گئے،ان سے ڈٹیکشن یونٹس چارج کئے گئے۔ فیروز والا میں 2920 یونٹس پر1200000روپے،عزیز کالونی ونڈالہ روڈ میں 9500 یونٹس پر500000 روپے،بابا بیکری ونڈالہ روڈ میں 9900یونٹس 500000روپے اور ملتان روڈ جمبر موڑ کے علاقے میں کنکشن کو 10185یونٹس پر 298480 روپے کی رقم چارج کی گئی اکیس روز کے آپریشن کے دوران کل8832کنکشن چیک کئے گئے،8727 کنکشن کے خلاف ایف آئی آر کی درخواستیں جمع کروائی گئیں جن میں سے7417 درخواستیں رجسٹرڈ ہو چکی ہیں کل1240ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔بجلی چوروں کو اب تک1کروڑ 93 لاکھ 51ہزار136یونٹس چارج کئے گئے ہیں جن کی رقم 86کروڑ44لاکھ 45ہزار 718 روپے بنتی ہے۔
توانائی کے بحران کی وجوہات تلاش کر کے مستقل بنیادوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں بجلی چوری میں ملوث بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے عملے کےخلاف بڑی کارروائی بھی عمل میں لائی گئی ہے ،بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے گریڈ سترہ سے بیس کے 1937افسران کے تبادلےبھی کئے ہیں ،بری شہرت رکھنے والے248افسران کو ہیڈکوارٹرز میں بھیج دیاہے۔ دستاویزات کے مطابق پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی نے 68بری شہرت کے افسران کو ہیڈ کوارٹر یا کم اہم جگہ پر تعینات کر دیا ،گریڈ سترہ کے 1290 ایس ڈی او اور آر اوز، گریڈ اٹھارہ کے 533 ایکسینز اور ڈی سی ایمزبھی تبدیل کیے ہیں ۔گریڈ انیس کے 91اور گریڈ 20 کے 23افسران کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے لیسکو نے سب سےزیادہ 351گیسکو 142، فیسکو کے 201افیسرز کو تبدیل کردیا آئیسکونے 221,میپکو نے314، پیسکو نے 307، حیسکو نے 122افیسرز تبدیل کردئیے ہیں سیپکو نے 86، کیسکو نے 168اور ٹیسکو نے 35افسران کو تبدیل کردیا۔جس سے بجلی چوری میں کمی آئی گی کیونکہ مختلف طریقوں سےافسران کے ساتھ ملکر بجلی چوری ہوتی ہے۔
محکمہ میں تبادلوں کے ساتھ ایک تجویزاور بھی ہے کہ نگران حکومت نے بجلی کی فروخت، تقسیم اورٹیرف کا موجودہ نظام ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ہے بجلی تقسیم کارکمپنیوں کوصوبوں کی ملکیت میں دینے کی سمری وفاقی کابینہ کو بھیجنے کی منظوری دےدی گئی ہے۔ نگران وفاقی حکومت نے ملک بھرمیں بجلی کے یکساں ٹیرف ختم کرنے، بجلی کے ریٹ اورسبسڈی کی ذمہ داری صو بو ں کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہےحیدرآباد اور سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی سندھ کی ملکیت میں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ کوئٹہ الیکٹرک کمپنی بلوچستان کی ملکیت میں دی جائےگی۔ لاہور، گوجرنوالا، فیصل آباد اورملتان الیکٹرک سپلائی کی ملکیت پنجاب کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کی ملکیت پنجاب اوروفاق کی مشترکہ طورپرہوگی۔ پشاور اورٹرائبل ایریا الیکٹرک سپلائی کمپنی خیبرپختونخوا کی ملکیت میں دینے کا فیصلہ ہوا،بجلی تقسیم کار کمپنی کوصوبوں کے حوالے کرنے کا پالیسی فریم ورک تیارکرلیا گیا ہے، بجلی چوری اور عدم وصولیوں کے باعث قومی خزانہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے اس سے بجلی کی تقسیم کاری میں بہتری اور صوبوں کی ذمہ داری سے وفاق بری الذمہ بھی ہو جائے گا۔پاکستان میں ایسے مافیا کو ختم کرنا بہت مشکل کام ہے کچھ عرصہ کے لیے ان مافیا کی کارروائیاں رک سکتی ہیں لیکن مستقل بنیادوں پر روکنا مشکل ہے بجلی چوری کے خلاف آپریشن کے ساتھ باقی چوروں کے خلاف بھی آپریشن ہونا چاہیے تاکہ ہم ایک بامقصد قوم بن سکیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)