• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیگار کی رسم زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے مطلق العنان بادشاہ ان کے امرا اور جاگیردار غریب نادار اور کمزور لوگوں کو طاقت کے بل پر غلام بنالیتے۔ انہیں زنجیروں سے باندھ کر زندانوں میں ڈال دیا جاتا۔ ان پر خونخوار قسم کے محافظ بٹھادیئے جاتے تاکہ بھاگنے کی کوشش کریں تو موقع پر ہی ان کی گردن اڑا دی جائے۔ جنگوں میں ان بے بس لوگوں سے بلااجرت باربرادری اور مشقت کے دوسرے سخت کام لئے جاتے۔ سستی برتنے پر بے تحاشا مارا جاتا۔ البتہ دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی ضرور دی جاتی تاکہ جسم اور روح کا رشتہ قائم رکھ سکیں اور مالکوں کے کام آتے رہیں امریکہ میں سیاہ فارم ہونے کا مطلب ہی غلام ہونا تھا۔ سفید فام آقا انہیں ڈھور ڈنگروں کی طرح استعمال کرتے۔ افریقہ اور ایشیا ء سمیت دنیا کے ہر ملک میں طاقتور طبقے کمزور اور بے نوا لوگوں کا جی بھر کا استحصال کرتے رہے تہذیب حاضر میں حکومتوں کی سطح پر نہ سہی جہاں جہاں جاگیردارانہ نظام کی علمداری ہے آج بھی جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہی ہے ہمارے ہاں پنجاب کے جاگیرداروں سندھ کے وڈیروں، خیبرپختونخوا کے خوانین اور بلوچستان کے سرداروں میں کم ہی خداترس اور غریب پرور ہوں گے جو اپنے مزارعوں، ہاریوں، بزگروں اور خدمت گاروں سے مفت بیگار نہ لیتے ہوں۔ ان میں سے بعض کی اپنی جیلیں بھی ہیں جن میں سرتابی کرنے والوں کی عزت نفس پامال کی جاتی ہے۔ مرد تو مرد ان کے بیوی، بچوں سے بھی بیگار لی جاتی ہے اور معمولی حکم عدولی پر بھی وحشیانہ سزائیں دی جاتی ہیں کبھی کبھار ایسے عقوبت خانے منظرعام پر آبھی جاتے ہیں اور ان میں بند لاچار لوگوں کو آزاد کرایا جاتا ہے۔
کرہ ارض کے دوسرے منطقوں کی طرح جموں وکشمیر میںبھی کئی سوسال تک بیگار کی ظالمانہ رسم جاری رہی۔ اسے سب سے پہلے دسویں صدی عیسوی میں ایک ہندو حکمران شنکرورمن نے رائج کیا جسے افغان عہد میں کابل حکومت کے گورنر کریم داد خان نے بام عروج کو پہنچایا۔ غریب کاشتکاروں کسانوں اور اہل حرفہ سے بیگار لینے کا یہ عمل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی یقیناً تھی لیکن بیگار لینے والے بیگاریوں کو پیٹ بھر روٹی ضرور دیتے جیسا کہ ازمنہ قدیم میں ہوتا آیا تھا۔ ڈوگروں نے جو کشمیری الاصل بھی نہ تھے راجپوتانہ سے نقل مکانی کرکے جموں کے پہاڑی علاقوں میں آباد ہوگئے تھے اقتدار پر قبضے کے بعد اس وحشیانہ رسم کو قانون کا درجہ دے دیا۔ انکار کی گنجائش تو پہلے بھی نہیں تھی مگر ڈوگرہ حکمرانوں نے بیگار قانون کی خلاف ورزی کو قابل تعزیر جرم قرار دےدیا۔ حکومت کے کارندے جس کو چاہتے لمبے عرصے تک کارسرکار کےلئے زبردستی گھر سے اٹھا کر لے جاتے پھر یہ استحقاق صرف مہاراجوں اور ان کے مصاحبین تک محدود نہیں تھا۔ سرکاری افسر، تحصیلدار، ذیلدار، نمبردار، گرداور، پٹواری، تھانیدار حتیٰ کہ عام کانسٹیبل بھی بےبس دیہاتیوں کو کارسرکار کے علاوہ ذاتی کاموں کےلئے بھی پکڑ کر ان کا کچومر نکالتے ان سے بھاری وزن اٹھوا کر دو دراز دشوار گزار اور برف پوش پہاڑی علاقوں کا سفر کرنے پر مجبور کیا جاتا۔
بین لااقوامی شہرت کا حامل مصنف آلڈوس ہکسلے کشمیر کی سیاحت کے تجربات بیان کرتے ہوئےلکھتا ہے ’’باربرداری کےلئے حیوانوں کی بجائے انسانوں سے کام لیا جاتا ہے میں نے خود دیکھاہے کہ انسان چھکڑوں کو حیوانوں کی طرح کھینچ رہے ہیں جن پر منوں بوجھ لدا ہوا ہے‘‘ شمالی سرحد پر فوج کو اناج اسلحہ اور دوسرا سامان پہنچانے کےلئے غریب اور ناتواں مسلمان دیہاتیوں کو گھوڑوں، گدھوں اور خچروں کی جگہ استعمال کیا جاتا۔ننگے پائوں یاگھاس پھونس کی چپلیں پہنے جولاچار مزدور بھوک پیاس سے نڈھال ہو کر ٹیڑھے میڑھے اور ناہموار راستوں میں گرپڑتے اور دم توڑ دیتے یا برفانی سردی سے اکڑ کر مرجاتے سرکاری کارندے انہیں وہیں پھینک کر آگے روانہ ہوجاتے۔ بیگار میں پکڑے جانے والے نادار دیہاتیوں کو مزدوری تو کجا کھانے کےلئے روٹی بھی نہ ملتی وہ اپنے گھروں سے خشک روٹی ساتھ لے جاتے جو ختم ہو جاتی تو جنگلی پھلوں یا پتوں پر گزارہ کرتے اور اکثر بھوکوں مرجاتے۔
کوئی مرتا تو اس کے لواحقین کو اس کے مرنے کی اطلاع بھی نہ دی جاتی اس کےبیوی بچے اس کے انتظار میں زندہ درگور ہوجاتے حکومت کو اس کی پروا نہیں تھی کہ گھر کے مرد چلے جانے سے ان کے بیوی بچوں پر کیا گزرتی ہے ستم بالائے ستم یہ کہ زراعت پیشہ دیہاتیوں کو بیگار پر اس وقت مجبور کیا جاتا جب انہیں زمینوں پر کام کرنا ہوتا بوائی کرنا ہوتی یا کٹائی کے دن ہوتے ان کے چلے جانے سے فصل کاشت نہ ہوسکتی زمینیں ویران پڑی رہ جاتیں اگر زمینوں میں بیج ڈال کر جاتے تو ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہوتا جس سے فصلیں تباہ ہوجاتیں اور ان کے لواحقین فاقوں مرتے۔ یہی سلوک چھوٹے موٹے کام کرکے روزی کمانے والے دوسرے لوگوں کےساتھ بھی ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورتحال سے بچنے کےلئے جموں وکشمیر سے سینکڑوں خاندان پنجاب یا دوسرے علاقوں میں نقل مکانی کرگئے کچھ لوگ پیشگی اطلاع ملنے پر روپوش بھی ہوجاتے اور منظرعام پر آنے کے بعد اس کی سزا بھی کاٹتے۔ جو لوگ بیگار کیلئے پکڑے جاتے ان کے بوڑھے ماں باپ اور بیوی بچے انہیں اس طرح رُخصت کرتے جیسے گھر سے کسی کا جنازہ اٹھتا ہے۔ بیگار کے علاوہ ٹیکسوں اور محصولات کی صورت میں ظلم کا ایک اور باب کشمیریوں کا مقدر تھا جس کی تفصیلات الگ مضمون کی متقاضی ہیں۔
آزاد اور مقبوضہ کشمیر میں 1947ء کے بعد پروان چڑھنے والی نسل کو ان سختیوں کا شاید ہی اندازہ ہو جو اُن کے آبائواجداد نے بھگتی ہیں لیکن ہر رات کی ایک صبح ہوتی ہے، کشمیری عوام تنگ آ کر جوابی وار کیلئے جو پلٹے تو آخری ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کو سرینگر سے بھاگتے ہی بنی اور وہ دن دور نہیں جب جموںوکشمیر کے عوام حقیقی آزادی کے ثمرات سے بہرہ ور ہوں گے۔
تازہ ترین