امام بخاریؒ کے دیس میں
ہمارے ادارے کی سہ ماہی میٹنگ تاشقند میں شیڈول کی گئی تھی، اس کے لیے ازبکستان کا ویزا درکار تھا، جس کے حصول کے لیے تگ و دو بھی ہمیں خود ہی کرنی تھی۔ سفارت خانے پہنچ کر ویزا سیکشن کے آفیسر کو ازبکستان کا دعوت نامہ پیش کیا، تو جانچ پڑتال کے بعد جلد ہی ویزا مل گیا۔ ویزا ملتے ہی ہم براستہ خجند، تاشقند پہنچ گئے۔ شہر کے مرکز میں ایک بہت خوب صورت ہوٹل میں ہمارے ٹھہرنے کا انتظام پہلے ہی سے تھا۔ شیڈول سخت ہونے کی وجہ سے دوسرے ہی روز سے علی الصباح میٹنگز کا آغاز ہوگیا، جس کا سلسلہ تین دن تک مسلسل جاری رہا۔
تھکادینے والی طویل میٹنگز سے طبیعت مضمحل ہوگئی تھی۔ سو، ہم نے ہفتے بھرکی چُھٹی لے کر بخارا اور سمرقند کے سفر کا پروگرام بنالیا۔ تاشقند میں ہمارے پاس چند گھنٹے تھے، جنھیں کارآمد بنایا جاسکتا تھا، لہٰذااس تاریخی شہر کو دیکھنے نکل کھڑے ہوئے۔ منظّم انداز سے آراستہ اس قدیم شہرکے مرکزی علاقوں میں جا بجا عہدِ رفتہ کی جھلک آج بھی نظر آتی ہے۔ پُررونق بازاروں میں چہل پہل کے باوجود یہاں ایک خاص قسم کا سکون محسوس ہوتا ہے۔
تاشقند شہرمیں دفتری مصروفیات اور وہاں کی سیّاحت کی تفصیل سے قبل، قدیم و تاریخی شہربخارا کا ذکرکرنا چاہوں گا کہ جہاں کا سفربہت یادگار اور اہمیت کا حامل رہا۔ بخارا، ازبکستان کا پانچواں سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ کسی دور میں ایرانی تہذیب کا اہم ترین مرکز تھا۔ شہر کی عمارتوں کا طرزِ تعمیر اور آثار قدیمہ ایرانی تاریخ اور فن کے ستونوں میں سے ایک ہیں۔ تاریخِ اسلام میں بخارا پہلی مرتبہ 850ء میں دولتِ سامانیہ کا دارالحکومت قرار پایا۔
سامانیوں کے دورِ عروج میں یہ شہر اسلامی دنیا میں علم و ادب کے مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ مسلم تاریخ کے معروف عالم، امام بخاریؒ اسی شہر میں پیدا ہوئے، جنھیں پانچ لاکھ احادیث مع سند زبانی یاد تھیں۔ اُن کی کتاب ’’صحیح بخاری‘‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ شہر1220ء میں چنگیز خان کی تباہ کاریوں کا نشانہ بنا، جس کے بعد یہ چغتائی سلطنت، تیموری سلطنت اور خان بخارا کی حکومت میں شامل ہوا۔ یہاں کی دوسری معروف شخصیت بوعلی سینا ہیں۔
ہم بخاراائرپورٹ پر اُترے تو مقامی گائیڈ نے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور ائرپورٹ سے سیدھے شہر کے وسط میں موجود تالاب (’’لب ِحوض‘‘) کے کنارے واقع ہوٹل لے گیا، جہاں ہمارے قیام و طعام کا مناسب انتظام تھا۔ لبِ حوض کسی زمانے میں ایک نہر سے منسلک تھا اور یہاں شہریوں کو ہمہ وقت تازہ پانی میسّرہوا کرتا تھا۔ تاہم، اب تالاب کا پانی آلودہ ہوجانے کے باعث پینے کے قابل نہیں رہا۔ تاریخی مقامات کی سیرکے دوران طرح طرح کے دعوے سامنے آتے ہیں، لیکن یہ کس قدر حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ گائیڈ نے مختلف مقامات کی تفصیلات بتاتے ہوئے ایک چشمے سے متعلق بتایا کہ ’’یہ چشمہ، حضرت ایوب علیہ السلام سے منسوب ہے۔‘‘ جو میرے لیے حیران کن بات تھی۔
ہاں، البتہ تالاب کے کنارے نصب ایک مجسّمے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جب اس نے بتایا کہ ’’گدھے پر سوار یہ ملّا نصیر الدین کا مجسمّہ ہے۔‘‘ تو کچھ عجیب نہیں لگا، بلکہ ہونٹوں پہ ہنسی سی کھیل گئی۔ کیوں کہ افغانستان، ترکی، ایران اور ازبکستان، چاروں ممالک کا دعویٰ ہے کہ ملانصیرالدین کا تعلق ان کے ملک سے ہے۔ خیر، یقین اور غیر یقینی کی کیفیت میں آگے بڑھے اور کچھ دُور شہر کی گزر گاہوں پر پیدل چلتے ہوئے ایک بازار تک پہنچ گئے۔ جس کے متعلق گائیڈ کا کہنا تھا کہ ’’کسی زمانے میں یہ طلائی زیورات کا ایک عظیم الشان بازار ہوا کرتا تھا۔ اُس دَور میں سُناروں کے اس بازارکو بخارا کے مالیاتی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔‘‘ اگرچہ بازار کے کچھ آثار تو موجود ہیں، لیکن اب یہاں کوئی سُنار نظر نہیں آتا۔
تاہم، بازار سے متصل چھت تلے ایک پُرہجوم بازار، پرانے زمانے کی طرح آج بھی تجارت کا اہم مرکز ہے اور ہر وقت کھچا کھچ بھرا رہتا ہے۔ انواع و اقسام کی اشیاء سے سجے اس بازار سے باہر آئے، تو خودکو قلعے کی بہت اونچی دیوار کے سامنے پایا۔ گائیڈ نے ایک جگہ رُک کر ایک چوبارے کی جانب اشارہ کیا اور بتایا کہ ماضی بعید میں یہاں سے حکم رانِ وقت اپنی رعایا سے مخاطب ہوا کرتے تھے۔ قلعے کے اندرتاریخی قلعوں کی طرح حفاظتی نقطۂ نظر سے تعمیر کی گئی موٹی دیواریں، دیوان اور بڑے بڑے دروازے عہدِ رفتہ کی داستانیں سناتے نظر آئے۔ چوں کہ ہمارا مقصد حضرت امام بخاریؒ کی درس گاہ اور مرقد پرحاضری اور ایصالِ ثواب کے لیے دُعا مانگنا تھا، لہٰذا گائیڈ سے کہا کہ ’’پہلے حضرت امام بخاریؒ کی درس گاہ پہ چلیں، اس کے بعد شہر کے قدیم و جدید دونوں پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔‘‘ گائیڈ نے میری بات سے اتفاق کیا اورفوری طور پر ہم حضرت امام بخاریؒ کی درس گاہ کی جانب روانہ ہوگئے۔
کچھ دُور گئے ہوں گے کہ اُس نے دو گنبدوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’وہ ہے امام بخاریؒ کی درس گاہ، جہاں ہمیں جاناہے۔‘‘ بائیں طرف مڑے تو ایک وسیع احاطہ ہمارے سامنے تھا۔ وہاں ایک اونچے مینار کے عین نیچے فلم بندی اور ماڈلنگ ہورہی تھی۔ تھوڑی دیر کے لیے تو ہم ششدر رہ گئے کہ شاید گائیڈ ہمیں کسی اور جگہ لے آیا ہے، لیکن پھر اُس نے دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’یہ حضرت امام بخاریؒ کی مسجد ہے اور بائیں جانب اُن کا مدرسہ، جہاں سے انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی۔‘‘ یہ سُن کر ہمیں حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا۔
ہم نے اپنی حیرانی کا اظہار کیا، تو اُس نے بتایا، ’’چوں کہ یہ ایک انتہائی خُوب صورت اور تاریخی عمارت ہے، اس لیے یہاں اکثرماڈلنگ اور فلموں کی شوٹنگز وغیرہ ہوتی رہتی ہیں، جب کہ کسی زمانے میں سزائے موت کے قیدیوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے لیے بھی اس مینار سے نیچے پھینکا جاتا تھا۔‘‘ بہرحال، ہم سب سے پہلے مسجد کے اندر گئے، وضو کے بعد نماز ادا کی، پھر امام بخاریؒ سے منسوب مدرسے اور دیگر جگہوں کی زیارت کی، تو ایک خاص قسم کے سکون کے ساتھ راحت و فرحت کا احساس ہوا۔
یہیں ہمیں پتا چلا کہ حضرت امام بخاریؒ، بخارا میں نہیں، بلکہ سمرقند میں مدفون ہیں۔ چوں کہ ہمیں سمرقند بھی جانا تھا، اس لیے اس بات کا قوی امکان تھا کہ وہاں حاضری کا موقع بھی مل جائے گا۔ اگلی صبح، سلطان کی رہائش گاہ گئے۔ اس کے عقبی حصّے میں ایک سوئمنگ پُول اور سامنے ایک چوبارے کے علاوہ رہائش گاہ کے اندر ایک خُوب صُورت میوزیم بھی ہے، جہاں سے سیّاح تاریخ کے جھروکوں کا سفر بھی بخوبی کرتے ہیں۔ نیز ملبوسات، آلات، اسلحہ، سکّہ جات کے علاوہ بھی یہاں بہت کچھ۔ موجود ہے-
سلسلۂ نقشبندیہ کی ابتدا
بخارا میں عموماً گائیڈزحضرت بہاؤالدین نقش بندی بخاری کے مزار پر بخوشی لے جاتے ہیں۔ ہمارے گائیڈ نے بھی ہمیں صبح سویرے وہاں لے جانے کا پروگرام بنایا، جہاں سے سلسلۂ نقشبندیہ کا آغاز ہوا تھا۔ مزار سے ملحق مسجد اور عمارتوں کی تزئین و آرائش پر خصوصی توجّہ دی گئی ہے۔ بہائو الدین نقش بندی کے مزار کے حوالے سے بہت سی دل چسپ باتیں مشہور ہیں کہ فلاں جگہ بیٹھ کر دُعا مانگیں، تو دُعا قبول ہوجاتی ہے، کوئی لاپتا یا گُم ہوجائے، تو کہاں بیٹھ کر دُعا مانگنی چاہیے۔ نیز، یہ کہ شیوخ کہاں بیٹھ کر ذکراذکار کیا کرتے تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یوں تو سلسلۂ نقشبندیہ سے متعدد شاخوں نے جنم لیا، لیکن بنیادی طورپر تین پہلو اہم سمجھے جاتے ہیں۔ یعنی دل میں کلمۂ طیبہ کا مسلسل ورد، شریعت کی تعمیل اورخلیفۂ اوّل سے نسبت۔
ایک بار پھر تاشقند آمد
ہم نے شام ہی کو ایک مقامی ٹیکسی والے سے تاشقند کے سفرکے لیے معاملات طے کرلیے تھے اورطے شدہ پروگرام کے مطابق علی الصباح بخارا سے تاشقند روانہ ہوگئے۔ کشادہ شاہ راہ پر ہماری گاڑی دھواں دھار رفتار سے رواں دواں تھی کہ کھیتوں کے بیچ ڈرائیور نے گاڑی روک کر دریافت کیا کہ ’’کیا آپ کو بھوک لگی ہے؟‘‘ ہم نے اثبات میں سر ہلایا، تو اس نے سڑک کنارے بیٹھ کر تربوز کھانے کی دعوت دی، جو ہم نے قبول کرلی۔ کھیت سے آئے ہوئے تازہ تربوز ذائقے اور مٹھاس کے لحاظ سے بے انتہا لذیذ تھے۔ ساتھ ہی تربوز بیچنے والی امّاں نے اپنی جھولی سے ایک نان نکالا اور ہمیں تربوز کے ساتھ کھانے کی ترغیب دی- وہاں کے نان ہمارے یہاں کے نان جیسے نہیں ہوتے۔
ان کے نان بلا مبالغہ آدھے آدھے کلو کے پیڑوں سے بنتے ہیں، لیکن اچھے خاصے موٹے ہونے کے باوجود اس مہارت سے پکائے جاتے ہیں کہ کچّے رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، نرم بھی رہتے ہیں اور اُن کا نان، ہماری طرح نوالہ بنا کرنہیں کھایا جاتا، بلکہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے دانتوں سے کاٹ کرکھاتے ہیں- بہرحال، تربوز اور نان سے خُوب لُطف اندوز ہونے کے بعد ہم پھرمحوِ سفرہوگئے۔ بعداز دوپہر سمرقند پہنچے، تو وہاں ہماری گائیڈ منتظر تھیں، جو ہمیں ہوٹل تک لے گئیں اور چند گھنٹے آرام کا مشہورہ دیا، جو ہم نے قبول کرلیا۔ کیوں کہ سفر خاصا لمبا اور تھکا دینے والا تھا۔ شام کو وہ تشریف لائیں اور سمرقند کے ایک مشہور ریسٹورنٹ لے گئیں۔
کھانے کے بعد سفر کے حوالے سے تفصیل بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’ہم سب سے پہلے ’’ریگستان‘‘ جائیں گے۔‘‘ تو مَیں ایک دم چونک گیا اوران سے ریگستان کا مطلب پوچھنے لگا، کیوں کہ اُردو کے متعدد الفاظ وسط ایشیائی زبانوں میں بھی مروّج ہیں، جوبولنے کی صُورت میں سمجھ آتے ہیں۔ جب مجھے سمجھ آگیا کہ ریگستان کا مطب وہی ہے، جو مَیں سمجھ رہا ہوں، تو میں نے وہاں جانے میں ہچکچاہٹ ظاہر کی، جسے گائیڈ نے بھانپ لیا اور بتایا کہ ’’ریگستان تین بلندوبالا اور منفرد عمارات کا مجموعہ ہے، جسے دنیا بھر سے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔‘‘ پھر مزید بحث کیے بغیرہم چل پڑے۔
ایک طویل سفر کے بعد ریگستان پہنچے، ڈرائیور نے گاڑی ایک جگہ روکی، تو ہماری نظریں خُوب صُورت طرزِ تعمیر کی حامل عمارات پر پڑیں، وہ دراصل تین عمارتیں تھیں، جنھیں انتہائی عمدگی سے باہم کھڑے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اُن معماروں کو داد دئیے بنا نہ رہ سکے، جنہوں نے اس قدر خُوب صُورتی اور توازن کے ساتھ ان عمارتوں کوتعمیر کیا اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ بلندو بالا عمارتیں، جو بظاہرقریب قریب کھڑی نظر آتی ہیں، ایک ساتھ تعمیر بھی نہیں ہوئیں، بلکہ یہ مختلف ادوار کے معماروں کی مہارت کا نتیجہ ہے، جنھوں نے ان عمارات کو صدیوں کے فرق سے تعمیر کیا۔
دائیں جانب مدرسہ شیردار، بائیں جانب مدرسہ اُلغ بیگ اوربالکل سامنے مدرسہ طلاکاری ہے۔ تینوں عمارات سے ماحول نیلگوں نظر آتا ہے، جس سے ہر آنے والے کو وسعت، ٹھنڈک اور آسودگی کا احساس ہوتا ہے۔ ہم نے اندر جاکر تینوں عمارات دیکھیں۔ ہر ایک عمدہ فنِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔ نیز، ان کے ساتھ چار بلندو بالا مینار بھی کھڑے ہیں۔ یہ ریگستان، کبھی تیموری سلطنت کا دارالخلافہ ہوا کرتا تھا، جس کی شان و شوکت آج بھی برقرارہے۔
بی بی خانم مسجد
سمرقند میں مسجد بی بی خانم، انتہائی دل کش طرزِ تعمیر کا جیتا جاگتا نمونہ ہے، اعلیٰ تعمیراتی مہارت کی شاہ کار یہ تاریخی مسجد 14ویں صدی کے عظیم فاتح، امیر تیمور نے اپنی اہلیہ سے موسوم کی تھی۔ تیمور نے 1399ء میں ہندوستان کی فتح کے بعد نئے دارالحکومت سمرقند میں ایک عظیم مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ جب کہ دوسری روایت کے مطابق، بی بی خانم مسجد، امیرِ تیمور کی بیویوں میں سے ایک نے اُس وقت تعمیر کروائی تھی، جب وہ جنگ پر گئے ہوئے تھے۔ یہ مسجد انیسویں صدی میں زلزلے میں تباہ ہوگئی تھی، بعدازاں1974ء میں حکومت ازبکستان نے اس کی ازسرِنوتعمیر کی۔
اُلغ بیگ کی رصد گاہ
مرزا اُلغ بیگ علمِ نجوم کا بہت شوقین تھا۔ اُس نے سمرقند میں ایک عظیم الشان رصدگاہ تعمیر کی۔ نجوم کے جو نقشے اُس نے تیار کیے، وہ نہایت درست تھے۔اُس کے عہد میں سمرقند کا شمار دنیا کے حسین ترین شہروں میں ہوتا تھا۔وہ امیرِ تیمور کے جانشینوں میں سے ایک صاحبِ علم تھا۔ فلکیاتی مشاہدات، مثلثیات یعنی ٹرگنومیٹری اور جیومیٹری میں اس کی مہارت کے پرستارآج بھی موجود ہیں۔ مرزا اُلغ بیگ کا شمار تاریخ کے بہترین ماہرینِ فلکیات میں ہوتا ہے۔ اُس نے زمین کے مدار کا ایک چکّر مکمل کرنے کے وقت کا تعیّن نکولس کو پرنیکس سے بھی زیادہ درست کیا، جو آج کے دَور کی تحقیق کے مطابق صرف 25سیکنڈ زیادہ ہے۔
جب ایسی مثالیں سننے کو ملتی ہیں تو یہ یقین اور پختہ ہو جاتا ہے کہ جو قومیں عروج پر ہوتی ہیں، وہ تاریخ کے اُس دَور میں کم و بیش ہر شعبے میں سب کی رہنمائی کررہی ہوتی ہیں۔ بہرحال، مرزا اُلغ بیگ کی رصد گاہ کا ایک چھوٹا سا حصّہ بحال کیا گیا ہے، جس سے اس رصد گاہ کی وسعت کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بھی کسی عجوبے سے کم نہیں۔ رصد گاہ کے مشاہدے کے دوران جب ہماری گائیڈ نے بتایا کہ مرزا اُلغ بیگ کو صرف دو یا تین سال حکم رانی کا موقع ملا اور اُنھیں قتل کردیا گیا، تو تیموری سلطنت کے زوال کی وجہ یک دَم سمجھ آگئی۔ (جاری ہے)