• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوشنبہ کا پُرفضا ماحول اور حسین مرکزی شاہ راہ، روداکی

تاجکستان کے دارالحکومت، دوشنبہ کے جس علاقے میں واقع فلیٹ میں ہمارے قیام کا بندوبست کیا گیا تھااور جہاں ہم دوپہر ڈھلے پہنچے تھے، ذرا شام اُترتے ہی اندازہ ہوا کہ یہ کافی پُرفضا مقام ہے۔ جب چار سو شام کے سائے منڈلانے لگے، توہم فلیٹ سے نکل کر باہر آگئے اور قربان علی کی بتائی ہوئی شاہ راہ پر چل پڑے۔ تھوڑی ہی دُور چلنے کے بعد ہر طرف چہل پہل سی دکھائی دینے لگی۔ کچھ دیر پہلے تک اسی خُوب صُورت شاہ راہ کو قد آور درختوں نے بڑی اُداسی سے گھیراہوا تھا، مگرشام ڈھلتے ہی روشنیوں اور برقی قمقموں کی بدولت اُس کے حُسن میں کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا۔

قربان علی نے ہمیں گھر سے نکلتے ہوئے بتادیا تھا کہ اسی شاہ راہ پر پریزیڈنٹ ہائوس واقع ہونے کی وجہ سے یہ شاہ راہ (روداکی) اپنے اختتام تک مکمل محفوظ ہے۔ سو، آپ بلاخوف و خطر سڑک کے آخری حصّے تک چہل قدمی کرسکتے ہیں۔ اُس روز تو تھوڑی ہی دُور جانے کے بعد جلد ہی واپسی کی راہ لی، لیکن دوشنبے کی خُوب صُورت اور طویل ترین مرکزی شاہ راہ، روداکی کے اطراف اور بیچوں بیچ چلنا پھرہمارا روز کا معمول بن گیا۔ یہاں تک کہ اُس کی خُوب صُورتی، دل کشی اور ہریالی ذہنوں میں آج بھی تازہ ہے۔ تاجکستان کے تقریباً تمام اہم سرکاری دفاتر اُسی پُرفضا اور حسین ترین شاہ راہ کے اِردگرد موجود ہیں۔

دل کش طرزِ تعمیر کا نمونہ ’’چائے خانہ راحت‘‘

روداکی پر واقع سب سے بہترین مقام ’’چائے خانہ راحت‘‘ ہے۔ یہ ریسٹورنٹ صدارتی دفاتر سے ملحق عمدہ طرزِ تعمیر کا ایک دل کش نمونہ ہے۔ جہاں ہمہ وقت لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ یہاں صرف سبز قہوہ، جسے مقامی زبان میں ’’چائی‘‘ کہتے ہیں، چینی کی چوکورڈلیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اس ’’چائے خانہ راحت‘‘ سے بہت سی داستانیں بھی منسوب ہیں، جن میں سے ایک پاکستان سے متعلق بھی ہے۔ 

کہتے ہیں جب پاکستان کے سابق صدر، پرویز مشرف تاجکستان کے سرکاری دورے پرگئے، تو تاجکستان کے صدر، رحمان انہیں بہ طورِ خاص چائے خانہ راحت لے گئے اور بتایا کہ یہ نہ صرف اُن کی پسندیدہ جگہ ہے، بلکہ اس سے اُن کے بچپن کی بہت سے یادیں بھی وابستہ ہیں۔ پھروہاں دونوں صدور نے کچھ دیر رقص کیا، جس کے بعد صدررحمان کی صدر مشرف سے گہری دوستی ہوگئی۔ بہرحال، روداکی کی خُوب صُورتی اور چائے خانہ راحت کی رونقیں، دوشنبہ میں ہمارے قیام کی حسین و بہترین یادوں کا حسین حصّہ ہیں اور آج بھی یاد آتی ہیں۔

 بھارت کا بھرپوراثرونفوذ

ہمیں فی الوقت تاجکستان میں قیام کے لیے ایک ہفتے کا ویزا ملا تھا، لہٰذا فوری طور پر ویزے کی توسیع کے لیے بھاگ دوڑ شروع کردی۔ اس دوران پاکستانی سفارت خانے میں23مارچ (یومِ پاکستان) کے حوالے سے منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کا بھی دعوت نامہ ملا اور ہم نے اُس موقعے کوغنیمت جانا کہ دوشنبے میں موجود پاکستانی کمیونٹی سے ملاقات کا وہ بہترین موقع تھا۔ وقتِ مقررہ پر سفارت خانہ پہنچے، تو وہاں عملے کے علاوہ کوئی درجن بھر افراد ہی موجود تھے۔ 

اندازہ ہوا کہ وہاں پاکستانی کمیونٹی کی تعداد بہت محدود ہے۔ تقریب کے بعد دوشنبے میں تعینات پاکستانی سفیرکے ساتھ چائے کے دوران غیر رسمی گفتگو اور ایک دوسرے سے تعارف کا موقع ملا۔ مجموعی طور پر اس ملک میں کاروباری مواقع اور دوطرفہ تعلقات سے متعلق خیالات چنداں حوصلہ افزا نہ تھے۔ ایسے میں ہمیں 90ء کی دہائی یاد آگئی، جب سوویت یونین سے آزادی کے بعد وسط ایشیائی ریاستوں نے پاکستان کا رُخ کرلیا تھا۔ اُن دنوں ہم اپنے ادارے کی سہ ماہی میٹنگز میں شرکت کے لیے کراچی جایا کرتے تو، ہوٹلز میں اُن ریاستوں سے آنے والے کاروباری افراد سے ملاقات بھی ہوتی، وہ اپنے مُلک کے لیے زیادہ تر ریڈی میڈ گارمینٹس، خصوصاً چمڑے کی مصنوعات کی خریداری کے لیے آتے، جوپاکستان کے لیے زرِمبادلہ کے حصول کا باعث تھا۔ 

لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ ممالک ہم سے دُور ہوتے چلے گئے اور اس خلا کو بھارت نے بھرپور طریقے سے پُر کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج وسط ایشیائی ممالک میں بھارت کا اثرونفوذ بہت زیادہ نظر آتا ہے۔ دوشنبے میں بھارتی سفارت خانہ بھی خاصا سرگرم ہے۔ کلیاب، افغانستان کی سرحد کے قریب تاجکستان کا ایک اہم شہر ہے۔ تاریخی طور پر یہ شہر تاجکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کا اہم مرکز رہا ہے۔ دوشنبہ سے کلیاب جاتے ہوئے دُور دُور تک شہری آبادی نظر نہیں آتی، لیکن بھارت نے یہاں بھی مکمل سہولتوں سے آراستہ ایک اسپتال تعمیر کررکھا ہے۔ جہاں سرجیکل پروسیجرز کی جدید سہولتیں بھی میسّر ہیں۔ دراصل، اس اسپتال کے قیام کا مقصد افغانستان کی خانہ جنگی کے دوران شمالی اتحاد کو سہولت فراہم کرنا تھا۔

سفراء سے ملاقاتیں

دوشنبے میں تعینات پاکستانی سفیر، اکثر اہم مواقع پر پاکستانی کمیونٹی کو سفارت خانے مدعو کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تقریب میں شرکت کے لیے ڈنر کا دعوت نامہ موصول ہوا، لیکن وہ صرف پاکستانی کمیونٹی کی دعوت نہیں تھی، بلکہ سفیرصاحب نے دیگر مختلف ممالک کے سفراء کو بھی اُس تقریب میں مدعو کررکھا تھا۔ ہم پہنچے تو سفیر صاحب نے گرم جوشی سے خوش آمدید کہا۔ تمام مہمانوں کی تشریف آوری کے بعد سفیر صاحب نے چند رسمی کلمات ادا کیے اور سب کو کھانے کی میز پر چلنے کی دعوت دی۔ سب اپنے اپنے نام والی کرسی پر براجمان ہوگئے۔

سفیر صاحب کے دائیں طرف فرانس کے سفیر اور بائیں جانب امریکا کی سفیرتشریف فرما تھیں۔ میرے ایک طرف ترکی کے اور دوسری طرف کرغیزستان کے سفیر براجمان تھے۔ ترکی کے سفیر کے ساتھ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ اُن کی وہاں حال ہی میں تقررّی ہوئی ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ مَیں ترکی جاچُکا ہوں، تو وہ بہت خوش ہوئے۔ پھر ہم استنبول شہر کے حوالے سے باتیں کرنے لگے۔ ہماری بات سُن کراچانک امریکی سفیر صاحبہ نے استنبول کے ایک بازار کا تذکرہ چھیڑ دیا، جو کسی زمانے میں قید خانہ ہوا کرتا تھا، تو میں نے اچانک ہی کہہ دیا کہ ’’پھر تو گوانتانا موبے بھی مستقبل کا بہترین بازار بن سکتا ہے۔‘‘ 

میرا یہ کہنا تھا کہ چند لمحوں کے لیے کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی۔ ترکی کے سفیر صاحب نے نظروں ہی نظروں میں میرا شکریہ ادا کیا۔ ہمارے سفیرموصوف نے بھی کن انکھیوں سے میری ستائش کی۔ لیکن، پھر موضوع بدل گیا اور کھانے کے ساتھ ساتھ دیگرموضوعات پر باتیں ہونے لگیں۔ چند ہفتوں بعد پاکستان کے یومِ آزادی کے حوالے سے پاکستانی سفارت خانے نے چائے خانہ راحت کے مرکزی ہال میں ایک تقریب کا اہتمام کیا، جس میں پاکستانی کمیونٹی کے علاوہ مختلف ممالک کے سفراء اور بڑی تعداد میں حکومتی عہدے داروں نے بھی شرکت کی۔ مَیں وہاں بھی مدعو تھا اورپاکستانی دوستوں کے ساتھ ہال کے ایک کونے میں گپ شپ میں مصروف تھا کہ امریکا کی سفیر صاحبہ تشریف لائیں۔ 

مرکزی دروازے پر موجود پاکستانی سفیر نے اُن کا خیرمقدم کیا۔ وہ کچھ دیر اُن کے ساتھ گفتگوکرتی رہیں، پھر مجھ پر نظر پڑی، تو سیدھی میری طرف آگئیں، مجھ سے تپاک سے ملنے، حال احوال پوچھنے کے بعد مجھے اپنے سفارت خانے آنے کی دعوت دے کرواپس پاکستانی سفیر کے پاس چلی گئیں۔ اُن کے اس طرزِ عمل سے مَیں نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ درست بات اگر درست موقعے پر کی جائے، تو بڑی سے بڑی بات بھی قبول کی جاسکتی ہے اور یہ کہ امریکی قوم بہرحال ذہانت و فطانت کی قدرکرتی ہے۔

پاکستان، سب کا گھر ہے

دوشنبہ کی مرکزی مسجد کافی کشادہ اور خُوب صُورت ہے۔ روداکی پرواقع ہونے کی وجہ سے مسجد تک رسائی بظاہر تو آسان، لیکن روڈ لائنز کی وجہ سے خاصی دشوار گزار تھی۔ شہر کی شاید ساری ٹریفک پولیس روداکی ہی پر موجود رہتی ہے اورمعمولی سی خلاف ورزی پرفوراً چالان کردیتی ہے۔ روڈ لائنز کی تشریح سے مکمل آگہی مجھے دوشنبہ ہی میں ہوئی کہ اگر درمیان کی لائن ایک ہے، تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے، دُہری ہے، تو کیا مقصد ہے اوردُہری لائن کا ایک حصّہ ٹوٹا ہوا ہے، تو اس کا کیا مطلب۔ اور یہ سب دوشنبہ کی مرکزی مسجد آنے جانے ہی کی بدولت پتا چلا۔ 

ایک روز تاجکستان کے وزارتِ خارجہ کے دفتر کے باہر ایک شخص نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے اُردو زبان میں پوچھا کہ’’ کیا آپ پاکستانی ہیں؟‘‘ مَیں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے حیرت سے کہا، ’’آپ نے اُردو کیسے سیکھی؟‘‘ تو انھوں نے بتایا کہ وہ انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی، اسلام آباد میں کچھ عرصہ زیرِ تعلیم رہے ہیں۔ انھوں نے اپنا نام مرزا نذر بتایا۔ اُن سے مختصر تعارف اور گفتگو کے بعد ہماری دوستی پکّی ہوگئی۔ یوں کہیے، میرے پہلے تاجک دوست بن گئے۔ 

پاکستان سے بے پناہ محبت کرنے والے اس شخص سے آج بھی فیس بُک پہ رابطہ برقرار ہے۔ مرزا نذر جب بھی میرا کسی سے تعارف کرواتے، تو کہتے، ’’یہ ہیں میرے ’’برودرپوکستانی‘‘ (بردار پاکستانی)۔ ایک دن نمازِ جمعہ کے بعد ہم دونوں مرکزی مسجد کے باہر کھڑے تھے کہ مرزا نذر کے ایک دوست تشریف لائے۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں اُن سے میراتعارف کروایا اور پھر دونوں دَری زبان میں گفتگو کرنے لگے۔ کچھ الفاظ سے مجھے اندازاہ ہوا کہ اُن کی زیادہ ترگفتگو میرے بارے ہی میں ہے۔ 

اسی اثناء یک دَم مرزا نذر نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’میرے یہ دوست اکثر پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔ اُن کا پرنٹنگ کا کاروبار ہے۔ تاجکستان سے پرنٹنگ کے آرڈرز لیتے ہیں اوربراستہ افغانستان، پشاورسے پرنٹنگ کرواکے لاتے ہیں۔‘‘ میں نے حیرت سے کہا، ’’اس طرح تو اخراجات کافی بڑھ جاتے ہوں گے۔‘‘ کہنے لگے کہ ’’آنے جانے کے اور دیگر اخراجات کے باوجود اچھی کوالٹی کی پرنٹنگ مقامی پرنٹرز سے کہیں کم قیمت پر کروالیتے ہیں اور تاجکستان میں ہمارے گاہک ہم سے بہت خوش ہیں۔‘‘ 

انہوں نے پاکستان کی بہت تعریفیں کیں، تو مجھے بہت فخر محسوس ہوا- جب ہم جانے لگے، تو وہ پُرجوش انداز میں بغل گیر ہوئے اور کہا ’’پاکستان ہم سب کا گھر ہے۔ دنیا میں اگر کسی کو اپنے ملک میں جگہ نہ ملے، تو پاکستان اُس کے لیے اپنے دامن میں جگہ بنالیتا ہے۔‘‘ اوریہ کہتے ہوئے وہ اچھے خاصے جذباتی ہوگئے۔ بلکہ وہ کیا جذباتی ہوئے، خود میری آنکھیں نم ہوگئیں۔

ایک دن مَیں اور مرزا نذر روداکی پر چہل قدمی کررہے تھے کہ ایک شخص سے ملاقات ہوئی۔ ابتداً مجھے لگا کہ وہ پاکستانی ہیں اور تبلیغی جماعت سے منسلک ہیں، کیوں کہ اُن کا لباس بالکل تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کی طرح تھا۔ وہ اُردو زبان میں بھی خاصی مہارت رکھتے تھے۔ ہم کافی دیر محوِ گفتگو رہے۔ وہ پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنے قیام کے واقعات سناتے رہے۔ 

پھر ایک عجیب واقعہ سنایا، کہنے لگے، ’’مَیں عموماً بغیر ویزے کے پاکستان چلا جاتا تھا، مگر پھر بہت سختی ہوگئی، ویزے کے بغیر جانا تقریباً ناممکن ہوگیا، تو میں نے پاکستانی سفارت خانے میں ویزے کے لیے درخواست دی، لیکن مسترد کردی گئی، تو میں نے سفارت خانے کے عملے سے یہ کہہ کر اپنا پاسپورٹ واپس لے لیا کہ مَیں آپ کو پاکستان پہنچ کر ٹیلی فون کروں گا۔ اور پھر جب میں نے پاکستان پہنچ کر سفارت خانے کو فون کیا اور بتایا کہ مَیں پاکستان کے فلاں شہر سے بات کررہا ہوں، تو وہ خاصے حیران اور پریشان ہوئے۔ لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے۔‘‘ بعد میں مَیں نے سفارت خانے کے عملے سے پوچھا، تو انہوں نے اس واقعے کی تصدیق کی- بہرحال، اس شخص کو بھی پاکستان سے بہت محبت تھی، جو اس کے لباس اور بول چال سے عیاں تھی۔

چین کی تعمیر کردہ شان دار سڑکیں

دوشنبہ میں رہتے ہوئے ہمارا سب سے اہم مسئلہ دوسرے ممالک کے ساتھ فضائی رابطہ تھا۔ مجھے اپنی یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی سائنوپسسز پیش کرنے کے لیے پاکستان جانا تھا۔ پتا چلا کہ اُن دنوں اسلام آباد جانے کے لیے براستہ دوشنبہ ایران، ایران سے مسقط اور پھر اسلام آباد ہی واحد صورت تھی۔ اور یہ بھی اگرکنیکٹنگ فلائٹس ہوتیں، تو خیر تھی، مگر دوشنبہ سے ہمیں ایران کا ویزا لینا تھا اور مشہد شہر سے آگے کی فلائیٹس کے ٹکٹ۔ یعنی اچھا خاصا خطرہ تھا، لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ بہرحال، ہم آسمان ائر سے مشہد پہنچنے میں کام یاب ہوگئے۔ 

اسی طرح ایک بار وسط ایشیا کی ٹیم کی سہ ماہی میٹنگ ازبکستان میں طے پائی، تو اُس کے لیے ہمیں دوشنبہ سے خجند بذریعہ جہاز اور خجند سے تاشقند سڑک کے ذریعے پہنچنا پڑا اور وہ بھی ایک انوکھا تجربہ تھا۔ خجند تو ہم بذریعہ ہوائی جہاز آسانی سے پہنچ گئے، لیکن وہاں سے بذریعہ ٹیکسی تاشقند بارڈر پہنچے تو معلوم ہوا کہ دونوں ممالک کے امیگریشن اور پاسپورٹ کنٹرول کے کاؤنٹرز کے درمیان اچھا خاصا فاصلہ ہے، جو پیدل طے کرنا پڑے گا۔ 

خجند، تاجکستان اور ازبکستان کی سرحد پر واقع ایک چھوٹا، مگر انتہائی خُوب صُورت شہرہے۔ خجند کے قریب ایک بڑی دل کش جھیل اور سیرگاہ بھی ہے۔ دل چسپ بات یہ تھی کہ خجند کے سرحدی علاقوں کی سڑکیں انتہائی شان دار تھیں۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ شان دارسڑکیں چین کے ون بیلٹ ون روڈ کا حصّہ ہیں، اور انھیں چین ہی نے تعمیر کیا ہے۔ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید