• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائفر کیس: چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل

اسلام آباد ہائی کورٹ—فائل فوٹو
اسلام آباد ہائی کورٹ—فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل دیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستِ ضمانت پر سماعت کی۔

اپنے دلائل عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لیے بیرسٹر سلمان صفدر اور اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی بھی روسٹرم پر آئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانون آرمڈ فورسز کے لیے ہے، ہم نے 8 کیسز دیکھے، اس سے پہلے ہم نے نہیں دیکھا کہ سابق وزیرِ اعظم کے خلاف یہ ایکٹ استعمال ہوا ہو، اس پورے کیس میں ممنوع جگہ کون سی ہے؟ کہاں دشمن کے ساتھ شئیر کیا گیا؟ ان کو کیسے پتہ چلا ٹیمپرنگ ہوئی ہے؟ کوئی ایکسپرٹس کی رپورٹ نہیں ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر ریکور کرنا ہے مگر ٹرائل کورٹ نے اس کیس میں فزیکل ریمانڈ ہی نہیں دیا، نیشنل سیکیورٹی وہاں پر ہے جہاں دشمن ممالک کےساتھ معلومات شیئر ہوئیں، یہ کسی ایک شخص کا ایکشن نہیں تھا بلکہ ایک حکومت کا ایکشن تھا، اگر ایک حکومت کہے کہ پچھلی حکومت کا فیصلہ ٹھیک نہیں تھا، وزارتِ خارجہ کیوں اس کا مدعی نہیں وزارتِ داخلہ کیوں ہے؟ 17 ماہ کی تاخیر سے ایف آئی آر کیوں درج ہوئی؟

وکیلِ صفائی نے کہا کہ یہ معاملہ 4 فورمز پر رکھا گیا اور بعد میں ایف آئی آر درج کر لی گئی، کابینہ اجلاس، نیشنل سیکورٹی کمیٹی میٹنگ، سپریم کورٹ میں بھی معاملہ ڈسکس ہوا، یہ معاملہ دو مرتبہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے پاس گیا، اس کے متن کے اوپر فارن ڈپلومیٹ کو بلا کر احتجاج کیا گیا۔

سلمان صفدر نے اپنے مؤقف میں کہا کہ پراسیکیوشن کا کیس ہے کہ سائفر 7 مارچ 2022ء کو آیا اور 11مارچ تک پٹیشنر کے پاس رہا، 11 اپریل کو شہباز شریف نے بطور وزیرِ اعظم حلف لیا، وزیرِ اعظم کی سربراہی میں 24 اپریل کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ ہوئی، 5 ماہ بعد کابینہ ایف آئی اے کو آگاہ کرتی ہے کہ سائفر وزیرِ اعظم ہاؤس سے غائب ہے، ایف آئی اے 6 دن بعد اس معاملے پر انکوائری اسٹارٹ کر دیتی ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے سوال اٹھایا کہ اگر سائفر وزیرِ اعظم ہاؤس میں تھا تو کیا شہباز شریف اس کیس میں ملزم ہیں؟ انہیں شاملِ تفتیش کر کے بیان لیا گیا؟ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ سائفر کے بغیر کیوں کی گئی تھی؟

بیرسٹر سلمان صفدر نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ ساری باتیں ایف آئی آر میں کیوں نہیں لکھی گئیں؟ اگر سائفر 2 وزرائے اعظم کی تحویل میں تھا تو ملزم صرف ایک سابق وزیرِ اعظم کو کیوں بنایا گیا؟

بیرسٹر سلمان صفدر نے اس موقع پر کہا کہ میں نے اپنے 60 فیصد دلائل مکمل کر لیے۔

دوسری جانب اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی نے ٹرائل کورٹ میں دستخط نہیں کیے، جیل ٹرائل کی درخواست پر فیصلہ نہ آنے کے باعث معاملے کو ٹرائل کورٹ میں لٹکایا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جیل ٹرائل والی درخواست پر تو فیصلہ محفوظ ہے، ایک دو دن میں آ جائے گا۔

اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ یہ سائفر کیس کا ٹرائل ہی نہیں چلنے دے رہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے اپنے حساب سے پروسیڈنگ چلانی ہے، اگر کوئی حکمِ امتناع نہیں تو صرف ہائی کورٹ میں معاملہ زیرِ التواء ہونے پر کارروائی نہیں روکی جا سکتی۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ 9 اکتوبر کو سائفر کیس میں ملزمان کو نقول دی گئیں، ملزمان کے وکلاء نے کہا ہے کہ جیل سماعت کے لیے ان کی درخواست زیرِ التواء ہے، عدالت ان کیسز کو اکٹھا کر کے ہی سن لے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ضمانت کا کیس الگ ہے اس کو الگ ہی سنا جانا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ٹرائل کورٹ کے ایشوز یہاں لے کر آ گئے ہیں، یہ تو پنڈورا باکس کھلے گا تو ان کو پتہ چلے گا، ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ سائفر کو ریکور کرنا ہے، ان کے الزامات ہیں کہ سائفر کو اپنے پاس رکھا اور ٹوئسٹ کیا، انہوں نے سائفر کو ریکور ہی نہیں کیا تو یہ کیسے پتہ چلا کہ اس کو ٹوئسٹ کیا۔

 بیرسٹر سلمان صفدر نے یہ بھی کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سیاسی قیدی ہیں، یہ قانون دشمن کے ساتھ معلومات شیئر کرنے سے متعلق ہے، بدقسمتی سے اس قانون کو سیاسی مخالفین کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

قومی خبریں سے مزید