• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: رابعہ مہر

ملبوسات: Fashion Hues Pk

آرایش: SLEEK BY ANNIE

کورآڈی نیشن: محمّد وسیم ملک

عکّاسی: ایم کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

ایک بے نام فیس بُک پوسٹ پڑھی ’’تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو، اگر تم سفر نہیں کرتے۔ اگر تم مطالعہ نہیں کرتے۔ اگر تم زندگی کی آوازوں کو نہیں سُنتے۔ اگر تم خُود کو نہیں سراہتے۔ اگر تم اپنی لگی بندھی زندگی کے غلام بن جاتے ہو۔ اگر تم اپنی روٹین تبدیل نہیں کرتے۔ اگر تم مختلف رنگ نہیں پہنتے یا تم اُن لوگوں سے بات نہیں کرتے، جنہیں تم نہیں جانتے۔ تو..... تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو۔‘‘ اللہ جانے کس کی تحریر ہے، لیکن ہے بہت سچّی اور دِل سے لکھی ہوئی۔ آپ میں سے ہر ایک اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائے، کیا حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ مَر تو سب نے ایک دن جانا ہی ہے۔ موت کا دن تو معیّن ہے، لیکن یہ جو ہم قسطوں میں خودکُشی کرتے ہیں۔ ؎ ’’صُبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے..... عُمر یوں ہی تمام ہوتی ہے۔‘‘ کے مصداق گھڑی کی ٹِک ٹِک کے ساتھ روزانہ ایک جیسے معمولات کے مطابق پوری زندگی بسر کردیتے ہیں، یہ کوئی زندگی تو نہ ہوئی۔

بقول جون ایلیا ؎ جو گزاری نہ جا سکی ہم سے..... ہم نے وہ زندگی گزاری ہے۔ آخر، ہم اپنی اس یک سانیت زدہ، سخت بورنگ لائف سے اُکتاتے کیوں نہیں۔ ایک ایک کرکے ہی سہی اپنی ’’نائن ٹو فائیو ٹائپ‘‘ لائف میں کچھ مثبت تبدیلیاں کیوں نہیں لاسکتے۔ ارادہ باندھیں، تو وقت بھی میسّر آجاتا ہے اور اخراجات کا انتظام بھی مشکل نہیں رہتا۔ یوں بھی ’’تبدیلی‘‘ کسی لمبی چوڑی پلاننگ کی محتاج نہیں ہوتی۔ سفر کے لیے لازم نہیں کہ پاکستان ٹور یا ورلڈ ٹور ہی کا پلان کیا جائے۔ سفر تو گھر سے پارک، کسی یادگار، تفریحی مقام تک کا بھی ہو، تو وسیلۂ ظفر بن سکتا ہے۔

مطالعے کے لیے کیا کچھ دست یاب نہیں، کچھ بھی ایسا منتخب کرلیں، جسے پڑھ کے مثبت سوچ، خیالات پروان چڑھیں، ذہنی، قلبی و رُوحانی تسکین حاصل ہو۔ زندگی کا شور شرابا تو ہمہ وقت سمع خراشی کرتا ہے۔ کچھ وقت فطرت کی آغوش میں امن و آشتی کی لوری سُنتے بھی گزرنا چاہیے۔ اہلِ خانہ، عزیزوں، دوستوں، رشتے داروں، شناسائوں، جانے پہچانے لوگوں سے میل ملاقات تو ضروری اور مجبوری بھی ٹھہری، لیکن کبھی کبھی اَن جان، اجنبی چہروں کو پڑھنے، اُن کا اندر کریدنے کی کوشش کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔

اور..... قدرت نے تین بنیادی رنگوں اور ست رنگی قوسِ قزح سے جو ہزارہا رنگ تخلیق کیے ہیں، وہ سب بھی آپ ہی کے لیے ہیں۔ آپ اگر مختلف النّوع رنگ نہیں پہنیں گے اور پھر اُن رنگوں سے سج سنور کے خُود کو سراہیں گے نہیں، تو نہ صرف ناشُکرگزار ہوں گے، بلکہ واقعی دھیرے دھیرے مرتے چلے جائیں گے۔ ایسے ہی تو نہیں کہا گیا ناں کہ ؎ رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خُوشبو آئے۔ بلکہ اقبال نے تو کہا ؎ قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بُو پر..... چمن اور بھی، آشیاں اور بھی ہیں۔

تو چلیں، ذرا اپنی آج کی ایک سے بڑھ کر ایک رنگ و انداز سےمرصّع بزم پر ایک نگاہ ڈالے لیتے ہیں۔ مسٹرڈ رنگ میں پرنٹڈ (میچنگ سیپریٹس) اسٹائلش سی شرٹ، ٹرائوزر کا جلوہ ہے، تو سیاہ رنگ میں پلین شرٹ، ٹرائوزر کے ساتھ خُوب صُورت پرنٹڈ شیفون دوپٹّے کی ہم آمیزی بھی کمال ہے۔ لائٹ گرے شیڈ کے جرسی فیبرک میں ایک حسین و دل آویز سا انداز ہے، تو سفید رنگ باٹم پلیٹڈ ٹرائوزر کے ساتھ ایپلک ورک سے مزیّن شرٹ کے بھی کیا ہی کہنے۔ سیاہ و سفید کے سدا بہار امتزاج میں شیشہ ورک کی آراستگی لیے نہایت نفیس پہناوا ہے، تو زرد رنگ کے ساتھ سفید کی آمیزش میں شان دار ایمبرائڈری سے مزیّن پہناوے کا تو گویا کوئی مول ہی نہیں۔

بس، آج ہی سے زندگی کو زندگی کی طرح جینے کا قصد کریں۔ یک سانیت زدہ، بورنگ لائف کی قید سے نکلیں۔ معمولات میں دیگر تبدیلیوں کے ساتھ رنگ پہننے، اوڑھنے، اُن سے خُود کو رنگنے اور اُنہیں صحیح طور پر برتنے کا طریقہ سلیقہ سیکھیں تاکہ آپ کا بھی اعتماد بحال ہو کہ ایسی سب شعر و شاعری درحقیقت آپ ہی کےلیے ہے۔ ؎ ہو رنگِ شفق جیسے رُخِ شام میں اُترا..... وہ میری نگاہوں کے درو بام میں اُترا..... وا ہونے لگے سارے اُمیدوں کے دریچے..... جب تیرا تصوّردلِ ناکام میں اُترا..... جب جذبۂ دل صفحۂ قرطاس پہ آیا..... تب عکسِ دروں شیشۂ پیغام میں اُترا۔