حُسن وجمال ایک امتحان بن گیا: شبِ معراج کی روایت، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’جب مَیں حضرت یوسف علیہ السلام سے ملا تو مَیں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پورے عالم کے حُسن وجمال میں سے آدھا اُنھیں عطا فرمایا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم،411) اور یوسف علیہ السلام کا یہی حُسن وجمال ایک نئے امتحان کا باعث بنا۔ بھرپوروجاہت کے ساتھ جب جوانی کی دہلیز پرقدم رکھا، تو عزیزِ مصر کی بیوی زلیخا فریفتہ ہوگئی۔ سورئہ یوسفؑ کی آیت 22سے34تک اس کی تفصیل موجود ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے ربّ سے دُعا کی کہ گناہ کے اس کام کے مقابلے میں مجھے قیدوبند کی زندگی پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی۔ دُعا، مومن کا ہتھیار ہے۔ حدیث نبویؐ میں آتا ہے کہ ’’سات انسانوں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عرش کا سایہ عطا فرمائے گا۔ اُن میں سے ایک وہ شخص ہے، جسے ایک ایسی عورت دعوتِ گناہ دے، جو حُسن وجمال سے بھی آراستہ ہو اورجاہ ومنصب کی بھی حامل ہو، لیکن وہ اس کے جواب میں یہ کہہ دے کہ مَیں تو اللہ سے ڈرتا ہوں۔‘‘(صحیح بخاری،1423)۔
زندان خانے سے شاہی محل تک: حضرت یوسف علیہ السلام کی بے گناہی کے ثبوت اوریقین کے باوجود عزیزِ مصر نے یہ مناسب سمجھا کہ انہیں کچھ عرصہ قید میں رکھا جائے۔ جیل میں حضرت یوسف علیہ اسلام کی ملاقات شاہِ مصر کے دوخاص ملازمین سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کا علم دیا تھا۔ خوابوں کے اس علم ہی نے آپ کو بادشاہِ مصر کے دربار تک رسائی دلادی۔
بادشاہ آپ کی خداداد صلاحیتوں، علمی قابلیت، دیانت داری اور مکارمِ اخلاق سے اتنا متاثر ہوا کہ اُنھیں ملک کے وزیرِ خزانہ کی اہم ذمّے داری سونپ دی۔ ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ بادشاہ مسلمان ہوگیا اور اس نے مملکتِ مصر کی تمام تر ذمّے داری حضرت یوسف علیہ اسلام کے حوالے کردی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے کنعان کے ایک بدوغلام کو مصر کے تختِ شاہی کا وارث بنادیا۔(قصص الانبیاء، مفتی شفیع، صفحہ298)۔
برادرانِ یوسفؑ، شاہ ِمصر کے دربار میں:بادشاہِ مصر کے خواب کی تعبیر کے مطابق، حضرت یوسف علیہ السلام کی حکومت کے پہلے سات سال مصر میں انتہائی خوش حالی کے گزرے، ان ایّام میں انہوں نے آنے والے قحط کے لیے وہ تمام پیش بندیاں کرلیں، جن کا مشورہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتاتے وقت وہ دے چُکے تھے۔ اس کے بعد قحط کا دَور شروع ہوا۔ یہ قحط صرف مصر ہی میں نہ تھا، بلکہ آس پاس کے تمام ممالک بشمول شام، فلسطین، شرقِ اردن اور شمالی عرب، سب قحط کی لپیٹ میں تھے۔
ان حالات میں حضرت یوسف علیہ السلام کی دانش مندانہ فیصلوں کی بدولت صرف مصر ایسا ملک تھا، جہاں قحط کے باوجود غلّے کی افراط تھی۔ چناں چہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی بھی غلّہ لینے مصر پہنچے۔ آپ نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا، مگر ان کے بھائی ان سے نا آشنا تھے۔ برادرانِ یوسفؑ کا آپ کو نہ پہچاننا، کچھ بعید ازقیاس نہیں۔ جس وقت انہوں نے آپ کو کنویں میں پھینکا تھا، اس وقت آپ کم سن تھے (عُمر کے معاملے میں مفسّرین میں اختلاف ہے) اور اب آپؑ کی عمر38سال کے لگ بھگ تھی۔ اتنی طویل مدّت بہت کچھ بدل دیتی ہے۔ اور پھر یہ تو ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ جس بھائی کو وہ کنویں میں پھینک گئے تھے، وہ آج مصر کا مختارِ مطلق ہوگا۔(تفہیم القرآن، جلد2،صفحہ414)۔
بِن یامین کے بغیر غلّہ نہیں ملے گا:جب یہ دس بھائی دربار میں پہنچے، تو حضرت یوسف علیہ السلام نے مزید اطمینان کے لیے ان سے سوالات کیے۔ فرمایا، ’’تم مصری معلوم نہیں ہوتے، تمہاری زبان بھی عبرانی ہے، کہیں کسی دشمن ملک کے جاسوس تو نہیں ہو؟‘‘ ان سوالات کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے حالات کے بارے میں سب کچھ بتادیں۔ بھائیوں میں سے ایک نے کہا کہ ’’ہم نبی زادے ہیں اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ ہم بارہ بھائی تھے۔ ایک بھائی کوبچپن میں بھیڑیا کھاگیا، جس کے غم میں ہمارے والد نابینا ہوچکے ہیں۔ ایک چھوٹا بھائی ہے، جسے والد کی دیکھ بھال کے لیے چھوڑآئے ہیں۔‘‘
حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں شاہی مہمان خانے میں ٹھہرایا۔جاتے ہوئے پورا اناج دیا اور کہا، ’’آئندہ اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لانا، اگر تم اسے لے کر نہیں آئے، تو غلّہ نہیں ملے گا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی آپؑ نے خفیہ طور پر ان کے اناج کی رقم بھی ان کی بوریوں میں رکھوادی۔ بھائی خوشی خوشی اناج لے کر کنعان واپس آئے اور والد سے کہنے لگے، ’’اب ہمارے لیے غلّے کا بندوبست ہوگیا ہے، ہمارے ساتھ بھائی کو بھیج دیجیے، تاکہ ہم پھر غلّہ لائیں اور اس کی نگہبانی کریں۔‘‘ والد نے کہا، ’’مجھے تو اس کی بابت تمہارا بس ویسا ہی اعتبار ہے، جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں تھا۔‘‘ (سورئہ یوسفؑ، آیت 63-63)۔
بِن یامین کی نگہبانی کا عہد:پھر جب انہوں نے سامان کھولا، تو دیکھا کہ ان کی پوری رقم واپس کردی گئی ہے۔ کہنے لگے ’’ابّا !ہمیں اور کیا چاہیے۔ اب ہم اپنے اہل وعیال کے لیے پھر غلّہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی نگہبانی کریں گے، اور ایک شتر زیادہ لائیں گے۔ یہ غلّہ جو ہم لائے ہیں، تھوڑا ہے۔‘‘حضرت یعقوب علیہ اسلام نے کہا کہ ’’جب تک تم اللہ کا عہد نہیں دوگے کہ اسے میرے پاس صحیح سالم لے آئوگے، میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا، سوائے اس ایک صورت کے کہ تم سب گرفتار کرلیے جائو۔‘‘ جب انہوں نے عہد دے دیا، تو انہوں نے کہا کہ ’’ہم جو کچھ کہتے ہیں، اس پر اللہ نگہبان ہے۔‘‘(سورئہ یوسفؑ، آیات66,65)۔
بھائی کو ساتھ رکھنے کی تدبیر: اناج ختم ہونے لگا، تو برادرانِ یوسفؑ نے دوبارہ مصر جانے کا قصد کیا اور جب وہاں پہنچے، تو بن یامین بھی ساتھ تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اُن سب سے بڑی عزت و احترام سے پیش آئے، شاہی مہمان خانے میں ٹھہرایا اوران پر عنایات کی بارش کردی۔ خلوت میں اپنے بھائی سے اپنا تعارف کروایا۔ تمام حالات سے آگاہ کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ’’ابھی اس راز سے پردہ نہ اُٹھانا، کوئی ایسی تدبیر کریں گے کہ تم ہمارے پاس ہی رہو۔‘‘ حضرت یوسف علیہ السلام نے اُن کی واپسی کے وقت اونٹوں پرغلّہ لدواکر ایک غلام کے ذریعے بِن یامین کے سامان میں ایک قیمتی پیالہ بھی رکھوادیا۔ سب بھائی خوشی خوشی روانہ ہوئے ہی تھے کہ ایک سرکاری اہل کار نے بہ آوازِ بلند کہا، ’’اے قافلے والو! تم چور ہو اور بادشاہ کا پیالہ چُرا کر لے جارہے ہو۔‘‘
سب فوری طور پر پلٹ آئے اور بولے ’’نہ ہم چور ہیں، نہ ہمارا مقصد فساد بپا کرنا ہے، اور نہ ہی ہماری فطرت اور عادت ہمیں اس فعلِ بد کے ارتکاب پر آمادہ کرسکتی ہے۔‘‘ شاہی ملازمین نے کہا کہ ’’اگر چوری کاسامان تمہارے پاس سے برآمد ہوگیا، تو اس کی سزا کیا ہوگی؟‘‘ وہ بولے ’’شریعتِ ابراہیمی میں اس کی سزا یہ ہے کہ چور کو اس شخص کے حوالے کردیاجاتا ہے۔‘‘ اور یہی تو حضرت یوسف علیہ السلام کی خواہش تھی۔ چناں چہ پہلے دسوں بھائیوں کے سامان کی تلاشی لی گئی اور آخر میں جب بن یامین کے سامان کی تلاشی لی گئی، توپیالہ برآمد ہوگیا، چناں چہ بن یامین کوساتھ جانے کی اجازت نہیں ملی۔(تفسیرابنِ کثیر، جلد2،صفحہ838)۔
بِن یامین کے بغیر کنعان کو واپسی: سورئہ یوسف کی آیات 77تا82میں بیان کیا گیا ہے کہ بھائیوں نے کہا کہ ’’اگر اس نے چوری کی ہے، تو تعجب نہیں، کیوں کہ اس کا ایک بھائی تھا، وہ بھی اسی کی طرح بچپن میں چوری کرچکا ہے۔‘‘ یہ قصّہ درّمنثور میں اس طرح لکھا ہے کہ ماں کی وفات کے بعد حضرت یوسفؑ اپنی پھوپھی کے پاس رہتے تھے، جب ذرا ہوشیار ہوئے، توحضرت یعقوب علیہ السلام نے انھیں اپنے پاس لے جانا چاہا، لیکن پھوپھی اُن سے بہت محبت کرتی تھیں۔ انہوں نے انہیں روکنے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا کہ اُن کی کمر میں کپڑوں کے اندر ایک پٹکا باندھ کر شور مچادیا کہ پٹکا گم ہوگیا ہے، سب کی تلاشی لی گئی تو پٹکا ان کی کمر میں بندھا نکلا، لہٰذا شریعت کے قانون کے تحت پھوپھی کی وفات تک یہ اُن ہی کے گھر میں رہے۔
ہوسکتا ہے کہ پھوپھی نے یہ سب ان کی رضامندی ہی سے کیا ہو۔ اب بھائیوں کو یہ فکر بھی لاحق تھی کہ والد کو کیا جواب دیں گے۔ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام سے درخواست کی کہ ’’ہمارے باپ بہت ضعیف ہیں، آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیں۔‘‘ لیکن جواب ملا، ’’یہ ممکن نہیں ہے، انصاف کا تقاضا ہے کہ جس نے جرم کیا ہے، سزا کا مستحق بھی وہی ہے۔‘‘ یہ سن کر وہ بڑے مایوس ہوئے، انہیں بن یامین کے بجائے باپ کی فکر تھی کہ کیا جواب دیں گے؟ ایک بھائی بولا ’’مجھے تو باپ کا سامنا کرنے کی ہمّت نہیں، میں تو یہاں سے واپس نہیں جائوں گا۔‘‘
الغرض، بقیہ نو بھائی کنعان روانہ ہوئے اور والد کو تمام صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے بولے، ’’اگر آپ کو ہماری باتوں کا یقین نہیں، تو آپ ہمارے ساتھ چل کر اس بستی کے لوگوں سے دریافت کرلیں، جہاں ہمارا قیام تھا۔‘‘ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا ’’میں تو اپنی پریشانی اور رنج و غم کی فریاد اپنے اللہ ہی سے کر رہا ہوں۔ مجھے اللہ کی طرف سے وہ باتیں معلوم ہیں، جو تم نہیں جانتے۔ میرے بیٹو! تم جائو اور یوسفؑ اور اس کے بھائی کو پوری طرح تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو۔ بے شک، اللہ کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں، جو کافر ہیں۔‘‘ (سورۂ یوسفؑ، آیات 87,86)۔
اپنی مصیبت و تکلیف بیان کرتے نہ پھرو: امام قرطبیؒ نے فرمایا کہ واقعہ یعقوب علیہ السلام سے ثابت ہوا کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ جب اسے کوئی تکلیف اور مصیبت اپنی جان، مال یا اولاد کی جانب سے آئے، تو اس کا علاج صبرِ جمیل اور اللہ تعالیٰ کی قضاء پر راضی ہونے سے کرے۔ جس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام اور دوسرے انبیائے کرامؑ کی روش رہی ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نزدیک انسان جس قدر گھونٹ پیتا ہے، ان سب میں دو گھونٹ زیادہ محبوب ہیں۔
ایک مصیبت پر صبر کرنا اور دوسرے غصّے کو پی جانا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ’’نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص اپنی مصیبت و تکلیف سب کے سامنے بیان کرتا پھرے، اس نے صبرنہیں کیا۔‘‘ حضرت ابنِ عباسؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو اس صبر پر شہیدوں کا ثواب عطا فرمایا اور اس امّت میں بھی جو شخص مصیبت پر صبر کرے گا، اسے ایسا ہی اجر و ثواب ملے گا۔ (قصص الانبیاء مفتی محمد شفیع ؒ صفحہ 323)۔
جب یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کو معاف کردیا: والد کے اصرار پر یہ سب بھائی دوبارہ شاہِ مصر کے دربار میں گئے اور نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ بھائی کی رہائی کی اپیل کی۔ نابینا باپ کے بڑھاپے اور دو بیٹوں کی جدائی کے صدمے کا ذکر کیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا دل بھر آیا، آنکھیں نم ہوگئیں۔ روایت میں ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے شاہِ مصر کے نام ایک خط بھی دیا تھا۔ والدِ محترم کا خط پڑھا، تواپنے جذبات پرقابو نہ رکھ سکے، بے اختیار آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری ہوگیا۔ روتے ہوئے بھائیوں کی جانب دیکھا اور بولے، ’’کیا تم لوگوں کو یاد ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ بچپن میں کیا برتائو کیا تھا؟‘‘ شاہِ مصر کی زبان سے حضرت یوسف علیہ السلام کا تذکرہ سن کر برادرانِ یوسفؑ حیران و پریشان ہوگئے۔
غور سے چہرئہ مبارک دیکھتے ہوئے گھبرا کر بولے، ’’کیا تم ہی تو یوسفؑ نہیں ہو؟‘‘ آنسوئوں سے تر چہرے پر ایک افسردہ سی مسکراہٹ ابھری اور جواب دیا ’’ہاں، میں ہی یوسفؑ ہوں اور یہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر فضل و کرم کیا، جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اور صبر کرتا ہے، تواللہ نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘ انہوں نے کہا ’’اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے تجھے ہم پر برتری دی ہے اور یہ بھی بالکل سچ ہے کہ ہم ہی خطاوار ہیں۔ (یوسف علیہ السلام نے) جواب دیا آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمہیں بخشے۔ وہ سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے۔‘‘ (سورۂ یوسفؑ،آیات92,91)۔
اور پورا خاندانِ یعقوبؑ مصرمیں آباد ہوگیا: فتح مکّہ کے موقعے پرحضور اکرم ﷺ نے بھی کفارِ مکّہ کو اُسی طرح معاف فرمایا تھا۔ جاتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کواپنا کُرتا دیتے ہوئے فرمایا ’’میرا یہ کُرتا لے جائو اور اسے میرے والد کی آنکھوں پر رکھوگے، تو وہ دیکھنے لگیں گے اوران سمیت اپنے پورے خاندان کو میرے پاس لے آئو۔‘‘ جب وہ والد کے پاس پہنچے، تو انھوں نے (حضرت یعقوب علیہ السلام) کہا کہ ’’مجھے تو یوسفؑ کی خوشبو آرہی ہے۔‘‘ وہ کہنے لگے ’’واللہ، آپ اپنے اس پرانے خبط میں مبتلا ہیں۔‘‘
پھر جب خوش خبری دینے والے آگئے اور اُن کے چہرے پر کُرتا ڈالا، تو بینائی واپس آگئی۔ کہا، ’’کیا میں تم سے نہ کہا کرتا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں، جو تم نہیں جانتے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ابّا جی! آپ ہمارے لیے گناہوں کی بخشش طلب کیجیے۔ بے شک ہم قصور وار ہیں۔‘‘ کہا، ’’اچھا میں جلد ہی تمہارے لیے اپنے پروردگار سے بخشش طلب کروں گا۔ وہ بڑا بخشنےوالا اور نہایت مہربان ہے۔‘‘ جب یہ سارا گھرانا حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچ گیا، تو(حضرت یوسف علیہ السلام نے) اپنے تخت پر اپنے ماں، باپ کو اونچا بٹھایا اور سب سجدے میں گرگئے۔ (سورۂ یوسفؑ،آیات 93تا 100)۔
مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ ’’یہ سجدئہ تحیت تھا، جو سابق امّتوں میں جائز تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے بچپن کا خواب یاد آگیا۔ انہوں نے کہا ’’اے ابّا جان! یہ میرے اُس خواب کی تعبیر ہے، جو میں نے بچپن میں دیکھا تھا اور جسے میرے ربّ نے سچ کر دکھایا۔ بادشاہِ مصر، جو پہلے ہی حضرت یوسف علیہ السلام پر ایمان لے آیا تھا، تمام امورِ سلطنت اُن کے حوالے کر کے خود سبک دوش ہوگیا۔
تخت پر حضرت یعقوب علیہ السلام کے ساتھ اُن کی دوسری بیوی تشریف رکھتی تھیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے پورے خاندان نے مصرمیں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی۔ جب وہ مصر میں داخل ہوئے، تو 93نفوس تھے، لیکن جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے، تو اُن کی تعداد 7لاکھ کے قریب تھی۔