جسے قرآن نے ’’احسن القصص‘‘ کہا:؎ بھاگ اُن بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی… بیچ ہی دیویں جو یوسفؑ سا برادر ہووے۔ چاہِ یوسفؑ سے ابھرنے والی صدائے بازگشت سے عالمِ انسانیت میں جوارتعاش پیدا ہوا۔ اس نے رشتوں کے تقدس میں ایک نئی جہت، نیا ولولہ بیدار کیا۔ قرآنِ کریم نے واقعۂ حضرت یوسفؑ کو ’’احسن القصص‘‘ کہا۔ اس لیے کہ اس میں جس قدرعبرتیں، حکمتیں اور مواعظ ونصائح ہیں، کسی دوسرے واقعے میں یک جا نہیں۔ برادرانِ یوسفؑ کا یہ واقعہ نیکی اور بدی کی قوتوں کے درمیان اس جہدِ مسلسل کی تجدید ہے، جس کی ابتداابوالبشر، حضرت آدم علیہ السلام کے دو صاحب زادوں ہابیل و قابیل کے درمیان حسد و نفرت سے ہوئی اور ایک بھائی ہابیل کے قتل کا باعث بنی۔
نیکی اور بدی کے درمیان یہ چپقلش ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی، لیکن کام یابی حق ہی کی ہوگی، جیسا کہ اس واقعے میں ہوا۔ یہاں ایک طرف صبر و استقامت، تسلیم و رضا، سوزوگداز، عفوودرگزر، تدبّر و بُردباری، حکمت و معاملہ فہمی، سخاوت و فیاضی، مُحبت و شفقت اور حق گوئی و بے باکی کا عظیم کوہِ استقلال ہے، تو دوسری طرف نفرت و عداوت کے شعلے، طعن و تشنیع کے انگارے، حسد و رقابت کے نشتر، شقاوت و سنگ دلی کے تیر، قہروغضب کے سنگ ریزے اور جھوٹ و بہتان کے کوہِ گراں بھی ہیں۔ بے شمارعبرتیں ، بصیرتیں، رب کے عدل و انصاف کی کرشمہ سازیاں اور بشری لغزشوں اور ضبطِ نفس کی عجوبہ کاریاں نمایاں ہیں۔
سیّدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ’’جسے اپنے چھوڑ دیں، اُسے غیر اپنا لیتے ہیں۔‘‘ برادرانِ یوسفؑ نے بھائی کو اندھے کنویں میں پھینک دیا، لیکن قدرت کا فیصلہ دیکھیے کہ علاقہ غیر کے عزیزِ مصر نے اُسے اپنا بنا لیا اور جب زنانِ مصر میں اُن کے حُسن کے چرچے ہوئے، تو اپنے محسن کی عزت کی حفاظت کے خاطر پابندِ سلاسل ہوکر زندانِ مصر کو اپنا مسکن بنالیا۔ جس کا کوئی نہیں ہوتا اُس کا خدا ہوتا ہے، جو انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔
زندان خانے کے گوشۂ گم نامی میں ربّ کی حمد و ثناء میں ہمہ تن مصروف، اس برگزیدہ نوجوان پر اب کرامات کا نیا باب شروع ہوا چاہتا ہے اور پھر ایک خواب کی تعبیر بادشاہِ مصر کو یوسفؑ کا اسیر بنا دیتی ہے اور جب شاہی ایوانوں میں براجمان اربابِ اختیار کے سامنے علم و حکمت اور فہم و فراست کے نئے نئے دریچے کُھلے تو شہنشاہ نے شاہی خزانوں کی چابیاں قدموں میں ڈھیر کردیں۔ گریۂ یعقوبؑ نے ہجر ِیوسفؑ میں بصارت کھوئی، تو ربّ نے پیراہنِ یوسفؑ سے بینا کردیا۔ اور پھر چشمِ فلک نے خانوادئہ یعقوبؑ کے ملاپ کا وہ منظر دیکھا کہ جس میں تختِ شاہی پر رونق افروز حضرت یوسف و حضرت یعقوب علیہم السلام کے سامنے برادرانِ یوسفؑ سجدہ ریز ہیں اور یوں بچپن کے خواب نے حقیقت کا روپ دھارلیا۔
وہ خواب، جس کی تعبیر 40سال بعد ملی: حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے، حضرت اسحاق ؑکے پوتے اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑ پوتے تھے۔ اُن کی والدہ کا نام حضرت راحیل بنتِ لایان ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو اُن سے بے پناہ محبت بلکہ عشق تھا، اس لیے وہ اُن کی جدائی گوارا نہ کرتے تھے۔ حضرت راحیل کے بطن سے دو بیٹے حضرت یوسفؑ اور حضرت بن یامین پیدا ہوئے، جب کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے کُل 12بیٹے تھے۔
حضرت یوسف علیہ السلام بچپن ہی سے عادات و اطوار میں اپنے دوسرے بھائیوں سے بالکل مختلف تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنی تمام اولاد میں حضرت یوسف علیہ السلام سے والہانہ محبت کرتے تھے، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کی پیشانی کا چمکتا ہوا نورِنبوت پہچانتے تھے اور وحیِ الٰہی کے ذریعے اس کی اطلاع پاچکے تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ والہانہ عشق برادرانِ یوسف ؑکے لیے سخت تکلیف دہ اور ناقابلِ برداشت تھا۔ وہ ہر وقت اس فکر میں لگے رہتے کہ یا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کے قلب سے ان کی محبت نکال پھینکیں یا پھر حضرت یوسف علیہ السلام ہی کو اپنے راستے سے ہٹا دیں، تاکہ قصّہ پاک ہوجائے۔ ان بھائیوں کے حاسدانہ رویّے کا قرآن میں بھی ذکر ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا، جسے قرآنِ کریم نے یوں بیان فرمایا ہے، ترجمہ:’’جب کہ یوسفؑ نے اپنے باپ سے کہا، ’’اے ابّا جان! میں نے خواب میں گیارہ ستاروں، سورج اور چاند کو دیکھا کہ وہ سب مجھے سجدہ کررہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’اے میرے بیٹے! تُو اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تیرے ساتھ کوئی چال چلیں، بلاشبہ شیطان انسان کا کُھلا دشمن ہے اور اسی طرح تیرا پروردگار تجھے برگزیدہ کرے گا اور معاملہ فہمی (یا خوابوں کی تعبیر) بھی سِکھائے گا اور تجھے اپنی بھرپورنعمت عطا فرمائے گا۔‘‘ (سورۂ یوسفؑ آیات4تا6)۔ یاد رہے، حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ کا انتقال چھوٹے بیٹے بِن یامین کی پیدائش کے وقت ہوگیا تھا۔
حسد و نفرت کی بھڑکتی آگ: بعض مفسّرین نے لکھا ہے کہ جس وقت حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والد کو خواب سُنا رہے تھے، اُس وقت اُن کی سوتیلی ماں دروازے کی آڑ سے ان کی باتیں سُن رہی تھی۔ اُس نے یہ بات اپنے بیٹوں کو بھی بتادی۔ آخرکار، حسد کی بھڑکتی ہوئی آگ نے ایک روز برادرانِ یوسفؑ کو اُن کے خلاف سازش کرنے پر مجبورکردیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’وہ کہنے لگے کہ یوسف (علیہ السلام) اور اُس کا بھائی (بن یامین) ہمارے باپ کو زیادہ پیارے ہیں، حالاں کہ ہم زیادہ طاقت وَر ہیں۔ بلاشبہ، ہمارے والد صریح غلطی پر ہیں۔ یوسفؑ کو تو مار ہی ڈالو، یا کسی (نامعلوم) جگہ پھینک دو، تاکہ والد کی توجّہ صرف تمہاری طرف ہوجائے، اس کے بعد تم نیک ہوجانا۔
اُن میں سے ایک نے کہا، یوسفؑ کو قتل نہ کرو، بلکہ اُسے کسی گم نام کنویں میں ڈال دو، تاکہ کوئی قافلہ اُسے اٹھا لے جائے، اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یہ کرو۔‘‘ (سورۂ یوسفؑ، آیات 8تا10) آپس کے اس مشورے کے بعد وہ سب حضرت یعقوب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے، ’’آپ یوسف (علیہ السلام) کو ہمارے ساتھ سیر کے لیے کیوں نہیں بھیجتے، کیا آپ کو ہم پر اعتبار نہیں ۔ ہم سے زیادہ اس کا محافظ دوسرا کون ہوسکتا ہے؟‘‘ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ترجمہ:’’ابّا! کیا بات ہے کہ آپ یوسفؑ کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتے، حالاں کہ ہم اس کے خیرخواہ ہیں۔
کل اُسے ہمارے ساتھ بھیج دیں کہ وہ کھائے پیے اور کھیلے کُودے اور اس کی حفاظت کے ذمّے دار ہم ہیں۔‘‘ (سورۂ یوسفؑ، آیات12,11) حضرت یعقوب علیہ السلام سمجھ گئے کہ اُن کے دلوں میں کھوٹ ہے۔ اوروہ یوسفؑ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ چناں چہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا ’’اُسے تمہارا لے جانا میرے لیے باعثِ تکلیف ہوگا اور مجھے یہ بھی خوف ہے کہ تمہاری غفلت کی بِنا پراُسے بھیڑیا نہ کھا جائے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا، ’’ہم جیسے طاقت وَر بھائیوں کی موجودگی میں بھی اگر اسے بھیڑیا کھا جائے، تو ہم بالکل نکمّے ہی ہوئے۔‘‘ (سورۂ یوسفؑ، آیات 14,13)۔
برادرانِ یوسفؑ کی شقی القلبی:دوسرے دن صبح روانگی سے قبل حضرت یعقوب علیہ السلام نے ایک بار پھر اُن دسوں بیٹوں کو یوسف علیہ السلام کی حفاظت کی یاد دہانی کروائی اور کچھ دُور تک اُن کے ساتھ گئے۔ جب تک والد ساتھ رہے وہ بھائی کو گود میں اٹھائے رہے، لیکن جیسے ہی وہ نظروں سے اوجھل ہوئے، انہوں نے یوسف علیہ السلام کو گود سے نیچے اُتارا اور مار پیٹ شروع کردی۔ اُن سب کے دل پتھر ہوچکے تھے۔ قرآنِ کریم میں یوں بیان کیا گیا ہے، ترجمہ:’’پھر جب وہ اُسے لے کر چلے، تو اُن سب نے مل کر ٹھان لیا کہ اسے غیرآباد گہرے کنویں کی تہہ میں پھینک دیں۔ ہم نے یوسف (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی۔‘‘ (سورۂ یوسفؑ، آیت 15)۔
مطلب یہ کہ جب انہوں نے اپنے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینک دیا، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی تسلّی اور حوصلے کے لیے وحی بھیجی، ترجمہ:’’گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تیری حفاظت ہی نہیں کریں گے، بلکہ تجھے ایسے بلند مقام پر فائز کریں گے کہ یہ بھائی بھیک مانگتے ہوئے تیری خدمت میں حاضر ہوں گے۔‘‘ (تفسیر،مولاناصلاح الدین یوسف، صفحہ642)۔
بلکتے یوسفؑ کی رحم کی التجا: امام قرطبی و دیگر مفسّرین بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالنے لگے، تو وہ کنویں کی منڈیر سے چمٹ گئے۔ بھائیوں نے اُن کے ہاتھ باندھے، اُس وقت حضرت یوسفؑ نے آب دیدہ ہوکر بھائیوں سے رحم کی التجا کی، مگر جواب ملا کہ ’’گیارہ ستارے، جو تجھے سجدہ کرتے ہیں، اُنھیں بُلا، وہی تیری مدد کریں گے۔‘‘ پھر ایک ڈول میں رکھ کر کنویں میں لٹکا دیا۔ جب نصف تک پہنچے، تو ڈول کی رسّی کاٹ دی۔ اللہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی حفاظت فرمائی۔ پانی میں گرنے کی وجہ سے اُنہیں کوئی چوٹ نہیں لگی۔
انہیں قریب ہی ایک پتھر کی چٹان نظر آئی اور وہ اس پر بیٹھ گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیلؑ کو حکم دیا اور انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اس چٹان پر بٹھایا۔ آپ تین روز تک اس کنویں میں رہے۔ بڑا بھائی یہودا (نام میں اختلاف ہے، مجاہدؒ نے شمعون لکھا۔ فتادہؒ اور محمد بن اسحاقؒ نے روبیل اور سعدیؒ نے یہوزا لکھا) دوسرے بھائیوں سے چُھپ کر روزانہ اُن کے لیے کھانا ،پانی لاتا اور ڈول کے ذریعے اُن تک پہنچا دیتا تھا۔(قصص الانبیاء، مفتی محمد شفیع ؒ ،صفحہ260)۔
بھائیوں کی جھوٹی آہ و بکا: آگے کےواقعات سے متعلق قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’رات کے وقت وہ سب روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے، ’’ابّا جان! ہم تو آپس میں دوڑ میں لگ گئے اور یوسف علیہ السلام کو ہم نے اسباب کے پاس چھوڑا۔ پس، اُسے بھیڑیا کھا گیا۔ آپ تو ہماری بات نہیں مانیں گے، گوکہ ہم بالکل سچّے ہی ہوں۔‘‘ وہ حضرت یوسفؑ کے کُرتے کو خون سے آلودہ (کسی جانور کے خون سے) بھی کر لائے تھے۔ باپ نے کہا ’’یوں نہیں، بلکہ تم نے اپنے دل ہی سے ایک بات بنالی ہے۔
پس، صبر ہی بہتر ہے اورتمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے۔‘‘ ابھی تین روز گزرے تھے کہ ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنے پانی لانے والے کو کنویں پر بھیجا۔ اس نے اپنا ڈول لٹکایا (حضرت یوسفؑ اس سے لٹک گئے) تو بولا ’’زہے قسمت، یہ تو ایک (حسین و جمیل) لڑکا ہے۔‘‘ اور انہوں نے اسے قیمتی مالِ تجارت سمجھ کر چُھپا لیا اور جو کچھ وہ کرتے تھے، اللہ کو سب علم تھا۔ (سورۂ یوسفؑ، آیات 16تا19)۔
آزادی سے غلامی کا سفر: مولانا محمد حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حجازی اسماعیلیوں کا ایک قافلہ، شام سے مصر جاتے ہوئے وہاں سے گزر رہا تھا، کنواں دیکھ کر انہوں نے پانی کے لیے ڈول ڈالا۔حضرت یوسفؑ سمجھے کے شاید بھائیوں کو رحم آگیا ہے، ڈول پکڑ کر لٹک گئے۔ تاجر نے ڈول نکالا، تو حضرت یوسفؑ کو دیکھ کر جوش سے شور مچایا۔ ترجمہ:’’بشارت ہو، ایک غلام ہاتھ آیا۔‘‘غرض، اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو تاجروں کے قافلے والوں نے اپنا غلام بنا لیا اور مالِ تجارت کے ساتھ ان کو بھی مصر لے گئے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کا یہ پہلو اپنے اندر کتنی عظمتیں پنہاں رکھتا ہے، اس کا اندازہ و ہی کر سکتا ہے، جو چشمِ بصیرت رکھتا ہو۔ چھوٹی سی عُمر میں والدہ کا انتقال ہوچکا ہے۔ باپ کی آغوشِ محبّت تھی، وہ بھی چُھوٹی۔ چھوٹا بھائی بھی چِھن گیا۔ سوتیلے بھائیوں نے بے وفائی کی۔ آزادی کی جگہ غلامی نصیب ہوئی، مگر ان سب باتوں کے باوجود قسمت پر شاکر، مصائب پر صابر اورخدا کے فیصلے پر راضی بہ رضا رہے۔ نیا زخم یہ کہ مصر کے بازار میں فروخت ہونے جا رہے ہیں۔ سچ ہے،’’ نزدیکاں رابیش بود حیرانی۔‘‘ (قصص القرآن حصّہ اوّل، صفحہ 221)۔
حضرت یوسف ؑ ، عزیزِ مصر کے محل میں: تقریباً دوہزار سال قبل مسیح میں مصر، تہذیب و تمدّن کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا۔ یہاں کے حکم ران عمالقہ تھے۔ جب کہ حضرت یوسف علیہ اسلام کنعان سے ایک بدوی غلام کی حیثیت سے مصر میں داخل ہوئے۔ مصر کا دارالسلطنت اُس زمانے میں رعمسیس تھا۔ یہ غالباً اس مقام پر واقع تھا، جہاں آج صان کی بستی آباد ہے۔ جغرافیائی حیثیت سے اس کا جائے وقوع مشرق کی جانب دریائے نیل کے قریب بتایا جاتا ہے۔ مصری افواج کا افسر شاہی خاندان کا ایک رئیس، سیر کے لیے مصر کے بازار سے گزر رہا تھا کہ حضرت یوسفؑ پر نظر پڑی۔
اُس نے معمولی قیمت دے کر اُنھیں خرید لیا۔ اُس زمانے میں مصری خود کو دنیا کی بہترین، مہذّب اور متمدّن قوم سمجھتے تھے، جب کہ بدوی اورصحرائی قبائل کو نہایت حقارت سے دیکھتے اور ان کے ساتھ اچھوتوں کا سا رویّہ اختیار کرتے تھے۔ اُن ہی قبائل میں سے ایک قبیلہ، نسلِ ابراہیمیؑ کی یادگار، کنعان میں آباد تھا، جہاں مدنیت وحضارت کا نام ونشان تک نہ تھا۔ ان کے رزق کا دارومدار شکار پرتھا۔ خس پوش جھونپڑیاں اور بکریوں کے گلّے اُن کے دھن دولت تھے۔
اِن حالات میں حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کی معجزنمائی دیکھیے کہ ایک بدوی اور وہ بھی غلام، ایک متمدّن اور صاحبِ شوکت وحشمت رئیس کے یہاں جا پہنچتا ہے، تو اپنی عصمت مآب زندگی، علم ووقار اور امانت وسلیقہ مندی کے پاک اوصاف کی بدولت اُس کی آنکھوں کا تارا اور دل کا مالک بن جاتا ہے اور وہ اپنی اہلیہ سے کہتا ہے، ترجمہ :’’(دیکھو!) اسے عزت سے رکھو، کچھ عجب نہیں کہ یہ ہمیں فائدہ بخشے یا ہم اسے اپنا بیٹا بنالیں۔‘‘ (سورئہ یوسفؑ، آیت21)
بہرحال، عزیزِ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ غلاموں جیسا معاملہ نہیں کیا، بلکہ اپنی اولاد کی طرح عزت واحترام سے رکھا اور اپنی ریاست، دولت وثروت اور گھریلو زندگی کی تمام تر ذمّے داری اُن کے سپرد کردی، یعنی ان سب کا امین بنادیا گیا۔ گویا کنعان کے گلّہ بان کو عن قریب بہت بڑی ذمّے داریوں کا نگراں ومالک بنایا جانے والا تھا۔ ایک مشہور صوفی ابنِ عطاء اللہ السکندری کا قول ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کے اکثر احسانات وکرم مصائب کے اندر مستور ہوتے ہیں۔‘‘ حضرت یوسف علیہ السلام کی ساری زندگی ہوبہو اسی مقولےکےمصداق ہے۔ (قصص القرآن، ازمولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ،222/1)۔ (جاری ہے)