احتساب عدالت اسلام آباد میں اسحاق ڈار و دیگر کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس پر سماعت مکمل ہو گئی جس کا فیصلہ 21 اکتوبر کو سنایا جائے گا۔
محفوظ فیصلہ آنے کے بعد پتہ چلے گا کہ سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار ریفرنس سے بری ہوں گے یا ریفرنس آگے چلے گا۔
آج احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سماعت کی تو نیب پراسیکیوٹر اور اسحاق ڈار کے وکیل قاضی مصباح نے دلائل مکمل کیے۔
اسحاق ڈار کے وکیل قاضی مصباح نے احتساب عدالت میں پیش ہوکر کہا کہ 22 نومبر 2022 کو بری کرنے کی درخواست پر دلائل سنے گئے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ عدالت نے اسحاق ڈار کو بری کرنے کی درخواست پر فیصلہ بھی سنایا تھا، اسحاق ڈار کے ریفرنس پر احتساب عدالت فیصلہ پہلے ہی کر چکی ہے۔
پراسیکیوٹر افضل قریشی نے کہا کہ ابھی تو بتانا ہے کہ کیس کو چلانا بھی بنتا ہے یا نہیں، احتساب عدالت نے اپنا مائنڈ بتا دیا ہے، داخل دفتر کرنا ٹھیک تھا۔
جج محمد بشیر نے سوال کیا کہ کیا نیا قانون اس پر نافذ ہوتاہے؟
وکیل صفائی نے کہا کہ ریفرنس بند کرنے کے بجائے اسحاق ڈار کو بری کیا گیا تھا، پراسیکیوشن اسحاق ڈار کے خلاف ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی اور سیکشن 9 اے 5 بھی ختم کردیا گیا ہے، کیس سے تعلق ہی نہیں رہا۔
وکیل صفائی قاضی مصباح نے کہا کہ مکمل دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا گیا۔
جج محمد بشیر نے کہا کہ ایک بار اور دلائل سن لیں گے، آپ کو تو دلائل یاد ہوں گے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ ضرور آپ کے سامنے دلائل دینے کے لیے ہی کھڑے ہیں، عدالت نے فیصلے میں لکھا تفتیش کسی وجہ سے ٹھیک طرح سے نہیں ہوئی، عدالت کو بتانا چاہتے ہیں کہ تفتیش کا طریقہ کار کیا تھا۔
وکیل صفائی قاضی مصباح بولے کہ کوئی گواہ نہیں آیا جس نے کہا ہو کہ اثاثہ جات سے متعلق دستاویزات غلط ہیں، جے آئی ٹی نہ تفتیشی افسر کوئی ثبوت اسحاق ڈار کے خلاف لایا، تفتیشی افسر کو جو ثبوت اکٹھے کرنے چاہیے تھے، نہیں کیے۔
وکیل صفائی نے اثاثہ جات سے متعلق احتساب عدالتوں کے دیگر فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔
انہوں نے کہا کہ اپنی اتھارٹی کا ناجائز فائدہ اٹھانے کا الزام تو اسحاق ڈار پر ہے ہی نہیں، اسحاق ڈار پر الزام صرف بطور پبلک افس ہولڈر اثاثہ جات میں اضافے کا ہے، ٹیکس دیکھنے والے ادارے کے مطابق اسحاق ڈار کے خلاف کوئی ثبوت نہیں، 2002ء سے 2008ء تک اسحاق ڈار نے متحدہ عرب امارات میں کام کیا۔
وکیل نے کہا کہ اسحاق ڈار نے الیکشن کمیشن میں گوشواروں میں سب کچھ ڈیکلیئر کیا ہے، اسحاق ڈار کے کوئی خفیہ اثاثے تفتیشی افسر اور جے آئی ٹی کو نہیں ملے، انہوں نے اپنی بیرونِ ملک کی آمدن بھی الیکشن کمیشن میں ظاہر کی، تفتیشی افسر اور جے آئی ٹی نے اسحاق ڈار کے معاملے پر بد دیانتی کی۔
سماعت کے دوران وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسر نے لکھا کہ ہجویری ٹرسٹ و آرگنائزیشن کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں لیا، ہجویری ٹرسٹ و آرگنائزیشن کا تعلق اسحاق ڈار سے نہیں، اسحاق ڈار پر اثاثہ جات چھپانے اور ٹیکس نہ دینے کا الزام ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس کے تمام ثبوت عدالت دیکھ چکی ہے۔
جج محمد بشیر نے کہا کہ دوبارہ دیکھ لیں گے، جواب الجواب میں دیکھیں گے۔
شریک ملزم کے وکیل نے کہا کہ اسحاق ڈار نے جو ریکارڈ دیا اسی پر کیس بنایا گیا، اسحاق ڈار نے جو ریکارڈ دیا اسی پر جے آئی ٹی اور تفتیشی افسر نے تفتیش کی، تفتیشی افسر اور جے آئی ٹی اپنی طرف سے کوئی ثبوت سامنے نہیں لائے، ڈونیشن سے متعلق پراسیکیوشن نے کہا کہ ریکارڈ بالکل درست ہے۔
انہوں نے عدالت میں کہا کہ اسحاق ڈار و دیگر کے خلاف ریفرنس میں کچھ ہے ہی نہیں۔
جج محمد بشیر نے کہا کہ کیا نیب پراسیکیوٹر جواب الجواب میں کچھ کہنا چاہیں گے؟
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی بولے کہ سپریم کورٹ فیصلے میں احتساب عدالت کو ڈائریکشن ہے کہ کیسز کو دوبارہ دیکھا جائے، اسحاق ڈار کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں، کسی عدالت کی طرف سے مزید تحقیقات کرنے کی کوئی ڈائریکشن بھی نہیں، سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو مزید کیس کو جانچنے کی ڈائریکشن دی ہے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ اگر نیب کوئی نئے ثبوت لے کر آتا ہے تو دلائل دے سکتے ہیں۔
جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ نیب کہتی ہے اسحاق ڈار کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔
بعدازاں احتساب عدالت اسلام آباد میں اسحاق ڈار و دیگر کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس پر سماعت مکمل ہو گئی جس کا فیصلہ 21 اکتوبر کو سنایا جائے گا۔
واضح رہے کہ احتساب عدالت نے اس سے قبل ریفرنس داخلِ دفتر کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ریفرنس پر دوبارہ سماعت کی گئی ہے۔