• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سارہ انعام قتل: شاہ نواز امیر کا 342 کا بیان آج مکمل قلم بند نہ ہو سکا

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو 

اسلام آباد کی عدالت میں سارہ انعام قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ نواز امیر کا 342 کا بیان آج مکمل قلم بند نہ ہو سکا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں سیشن جج ناصر جاوید رانا کی عدالت میں سارہ انعام قتل کیس کی سماعت ہوئی۔

پراسیکیوٹر راناحسن عباس، وکیل صفائی بشارت اللّٰہ سیشن عدالت میں پیش ہوئے۔

جج نے وکیلِ صفائی بشارت اللّٰہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے 342 کے سوال نامے کے جوابات تیار کر لیے ہیں؟

وکیلِ صفائی بشارت اللّٰہ نے جواب دیا کہ شاہ نواز امیر کے 342 کے بیان کے لیے جوابات تیار کر لیے ہیں لیکن ملزم نے 342 کے سوال نامے میں 2 سوالات پر اعتراض اٹھایا ہے، کسی گواہ نےنہیں کہا کہ گاڑی مقتولہ کے پیسوں سے لی اور شاہ نواز امیر پر مقتولہ کو ٹارچر کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ 

جس پر پرایسکیوٹر رانا حسن عباس نے جواب دیا کہ پراسیکیوشن کے دیے گئے ثبوتوں میں سب کچھ موجود ہے، سب کی موجودگی میں گواہان کے بیانات لیے گئے تب تو اعتراض نہیں اٹھایا گیا، شاہ نواز امیر کےخلاف ثبوتوں کے ذریعے کڑی سے کڑی ملا کر سوالات بنائے گئے ہیں۔

وکیلِ صفائی بشارت اللّٰہ نے کہا کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ پر جواب دیا، گواہوں کے بیانات پر جواب کیسے دیا جا سکتا ہے۔

سیشن جج نے وکیل صفائی کو ہدایت دی کہ دیگر سوالات کے جوابات تو قلم بند کروائیں۔

ملزم شاہ نواز امیر کا 342 کا بیان

ملزم شاہ نواز امیر نے 342 کے بیان کے سوال نامے کے جواب میں عدالت کو بتایا کہ پرایسکیوشن نے جو ثبوت جمع کروائے انہیں جانتا ہوں، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سر پر متعدد زخموں کا ذکر نہیں، پراسیکیوشن کی جانب سے جھوٹی کہانی بنانے کے لیے ڈاکٹر نے سر پر متعدد زخموں کا بیان دیا۔

ملزم نے بتایا کہ مجھےسارہ انعام کے خون آلود کپڑوں کا کچھ معلوم نہیں، مقتولہ کے والد انعام الرحیم، چچا اکرام الرحیم کسی واقعے کےچشم دید گواہ نہیں، پولیس کو دیے گئے اپنے پہلے بیان میں والد انعام الرحیم نے مجھ پر قتل کا کوئی الزام نہیں لگایا۔

ملزم شاہ نواز امیر نے بتایا کہ کوئی ریڈیولوجسٹ بطور گواہ نہ کوئی ایکسرے بطور ثبوت میرے خلاف پیش کیا گیا، پولیس نے مدعی کے ساتھ مل کر جھوٹی کہانی بنائی، موبائل فون ٹوٹنے کی کہانی اصل حقائق کو منظرِ عام سے ہٹانے کے لیے بنائی گئی۔

ملزم نے بتایا کہ ر پولیس نے سارہ انعام کی موبائل سم لی نہ ہی فارنزک کے لیے بھیجا، مدعی نے سارہ انعام کے اصل موبائل کو تبدیل کر دیا، 5 اکتوبر 2022ء کو لیا گیا میرا مبینہ وائس سیمپل بھی ایف آئی اے کو نہیں بھیجا گیا۔

ملزم شاہ نواز امیر نے سوال کیا کہ پولیس نے ثبوت مدعی سے حاصل کیے جو میرے خلاف پلانٹ کیے گئے تھے، ثبوت وقوعہ والے دن کمرے میں موجود تھے تو اسی دن پولیس نے کیوں نہیں برآمد کیے؟

ملزم نے بتایا کہ سارہ انعام کو بھیجے گئے میرے وائس میسج بھی مدعی کی جانب سے جھوٹی کہانی ہے، میرے اور سارہ انعام کے موبائل سے وائس میسج نہیں ملے، دورانِ جسمانی ریمانڈ پولیس نے میری آواز ریکارڈ کی اور فارنزک کے لیے بھیج دی، کسی مجسٹریٹ کی موجودگی میں میری آواز کا نمونہ نہیں لیا گیا۔

ملزم شاہ نواز امیر نے بتایا کہ مجھے معلوم نہیں پولیس نے میرے بینک اکاؤنٹ کا کون سا اسٹیٹمنٹ حاصل کیا، ایف آئی اے کی میرے وائس سیمپل کی فارنزک بھی پولیس کی من گھڑت کہانی ہے۔

ملزم نے بتایا کہ میرے طبی معائنے کی بھی کوئی درخواست نہیں تھی، میرے خلاف جھوٹی دستاویزات بنائی گئیں، میرے موبائل سے جائے وقوع کی لی گئی تصاویر کا مجھے معلوم نہیں۔

ملزم شاہ نواز امیر نے یہ بھی بتایا کہ میری اور سارہ انعام کی واٹس ایپ چیٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارےدرمیان کوئی تنازعہ نہیں تھا، میں اور میری اہلیہ سارہ انعام بہت خوشی سے ساتھ رہ رہے تھے، وقوعہ والے دن سارہ انعام میرے پاس ہنسی خوشی موجود تھیں۔

ملزم شاہ نواز امیر نے کہا کہ وقتِ وقوعہ کے بعد سے میرا موبائل تھا ہی پولیس کے پاس، میرے اور سارہ انعام کے نکاح کی کاپی بھی وصول کی جا چکی ہے، پولیس نے ڈی این اے رپورٹ بھی جعلی بنائی تاکہ میرے خلاف جھوٹا ثبوت بنایا جا سکے۔

ملزم کا کہنا ہے کہ میں 23 ستمبر 2022ء سے اور مقتولہ کی لاش 28 ستمبر 2022ء سے پولیس کی تحویل میں تھی، پوسٹ مارٹم رپورٹ 28 ستمبر 2022ء کو میرے خلاف تیار کی گئی، سارہ انعام میری اہلیہ تھیں، میرے کمرے میں ساتھ رہتی تھیں،انہوں نے میرے ساتھ کنٹریکٹ پر مبنی نکاح کیا تھا۔

ملزم شاہ نواز امیر نے بیان دیا ہے کہ سارہ انعام نے اپنے والدین کو بتائے بغیر مجھ سے نکاح کیا تھا، انہوں نے دبئی سے پاکستان آ کر مجھ سے نکاح کیا، ہم بہت خوش تھے، سارہ انعام اور میرے درمیان بہت محبت تھی، کوئی تنازع نہیں تھا۔

سارہ انعام قتل کیس کے ملزم شاہ نواز امیر کا 342 کا بیان آج مکمل قلم بند نہ ہو سکا۔

جج ناصر جاوید رانا نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر شاہ نواز امیر کا مکمل بیان قلم بند کروا لیں اور اس کے ساتھ ہی کیس کی سماعت 25 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔

قومی خبریں سے مزید