تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی چار سال بعد وطن واپسی ہماری قومی تاریخ کا بلاشبہ نہایت غیر معمولی واقعہ ہے۔ چار سال پہلے کسی کیلئے بھی یہ دعویٰ کرنا محال تھا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سے پارلیمنٹ کی رکنیت کیلئے تاحیات نااہل قرار دیے جانے اور ایک احتساب عدالت سے دس سال قید کی سزا پانے والے میاں نواز شریف بغرض علاج بیرون ملک جانے کے بعد قطعی بدلے ہوئے حالات میں وطن واپس آئیں گے۔ تاہم اس مدت میں ایسے بہت سے حقائق پوری طرح بے نقاب ہوچکے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ آئین و قانون کے مطابق سویلین بالادستی کے قیام کیلئے ان کے عزم نے بعض ریاستی اداروں کی قیادت کیلئے انہیں ناقابل برداشت بنا رکھا تھا ۔ ان کی سابقہ دو حکومتیں بھی اسی وجہ سے ختم کی گئی تھیں اور پھر 2013ء کے انتخابات کے بعد تیسری بار قائم ہونے والی ان کی حکومت کے خلاف بھی بالکل ابتدائی دنوں ہی سے منصوبہ بندی شروع کردی گئی۔ 2014ء میں ان کی حکومت کے خاتمے کی خاطر وفاقی دارالحکومت میں چار ماہ تک دیا جانے والا دھرنا اس کا پہلا بڑا مظاہرہ تھا تاہم جمہوری قوتوں کے اتحاد کے سبب یہ کوشش ناکام ہوگئی لیکن پھر پاناما لیکس میں عدالتی کارروائی کے ذریعے یہ مقصد حاصل کرلیا گیا جس پر موجودہ چیف جسٹس منصب سنبھالنے سے کئی ماہ پہلے ایک خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ ایک وزیر اعظم کو بیٹے سے وصول نہ کی جانے والی تنخواہ کا ذکر حسابات میں نہ کرنے پر گھر بھیج دیا گیا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بیان اور فیض آباد دھرنے کی شکل میں اس بارے میں مزید اہم شواہد سامنے آچکے ہیں ۔ پچھلے عام انتخابات میں اپنے پسندیدہ گروہ کو برسراقتدار لانے کیلئے انتخابی عمل کے تمام مراحل میں جس طرح کھلی مداخلت کی گئی ،یہ سب اب کوئی راز نہیں۔سابق فوجی قیادت کی جانب سے سیاسی معاملات میں مداخلت کا اعتراف اور بحیثیت ادارہ سیاست سے دور رہنے کا اعلان بھی کیا جاچکا ہے۔ عدلیہ اور فوج کی سربراہی سے جن شخصیات کو ان کے کھرے کردار اور آئین وقانون کی بالادستی کا علمبردار ہونے کے باعث دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی،آج ان اداروں کی قیادت ان ہی کے پاس ہے۔ اس طرح نواز شریف ریاستی اداروں کے رویوں کی حد تک تو بلاشبہ مثبت طور پر تبدیل شدہ پاکستان میں واپس آئے ہیں لیکن جہاں تک معاشی ، سماجی اور سیاسی چیلنجوں کا تعلق ہے تو وہ یقینا بہت سخت ہیں جن کا سامنا عام انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کو کرنا ہوگا خواہ وہ کسی کی بھی ہو۔ عالمی ادارے مسلم لیگ (ن) کے پچھلے دور حکومت میں پاکستان کو دنیا کی دس ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شمار کرتے تھے۔ سی پیک کا عظیم الشان منصوبہ تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا ۔تاہم اس کے بعد معیشت سخت زوال کا شکار ہوئی اور ساڑھے تین سال بعد پی ڈی ایم کی حکومت اس حال میں قائم ہوئی کہ ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر تھا۔ موجودہ نگراں حکومت اور عسکری قیادت نے معاشی بحالی کی خاطر اہم اقدامات کیے ہیں لیکن پائیدار معاشی پالیسی سازی بہرحال منتخب حکومت ہی کو کرنا ہوگی۔ نفرت انگیزی کی سیاست کی وجہ سے معاشرے میں جس قدر تفریق و تقسیم ہوچکی ہے، اسے ختم کرنا بھی پوری سیاسی قیادت کی ذمے داری ہے اور نواز شریف کو اس معاملے میں بھی مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفادات کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف مکمل غیرجانبدار نظام احتساب کا فعال رہنا یقینا لازمی ہے لیکن ذاتی انتقام کے جذبات سے بلند رہنا بھی ضروری ہے۔بحیثیت مجموعی نواز شریف کو اب قومی اتحاد و یگانگت اور ملکی ترقی و خوشحالی کا نقیب بننا اور حتی الامکان سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا کہ قومی فلاح و کامرانی کی منزل تک اسی راہ پر چل کر پہنچا جاسکتا ہے۔