• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: چندا بخاری

ملبوسات: ثمرہ عامر

آرایش: دیوا بیوٹی سیلون

کوارڈی نیٹر: عابد بیگ

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

خواتین ہمیشہ اپنے لُکس (وضع قطع، چَھب ڈھب) کی طرف سے پریشان ہی رہتی ہیں کہ ہم پتا نہیں اِس پوشاک، پہناوے، ملبوس میں، اِس ہیئر کٹ، ہیئر اسٹائل، میک اَپ میں، فلیٹ چپل، بیڈ ہِیلز یا ہائی ہِیلز کے ساتھ یا بالکل ہی کیژول سے رَف اینڈ ٹف اسٹائل میں کیسی لگ رہی ہیں۔ آئینہ کہیں جُھوٹ تو نہیں بول رہا۔ دِل ناحق ہی کسی خُوش فہمی کا شکار تو نہیں۔ جس محفل میں شرکت کی تیاری ہے، مَیں اُس میں سب سے منفرد، خاص لگوں گی یا خُود کو بالکل آکووَرڈ (Odd one out) تو محسوس نہیں کروں گی۔ ارے کوئی مسائل سے مسائل ہیں، خواتین کی زندگیوں میں۔ یہ ڈریس اُس نے دیکھا ہوا ہے، اُس نے نہیں دیکھا۔ 

یہ رنگ مجھ پہ کچھ خاص کِھلتا نہیں اور جو میری پسند کے رنگ کا لباس ہے، اُس کا ٹرائوزر فیشن کے مطابق سِلا ہوا نہیں۔ اتنا منہگا سُوٹ ہے، شرٹ چھوٹی سلوا لی اورکچھ عرصے بعد لمبی قمیصیں فیشن میں آگئیں، تو پھرکیا ہوگا۔ پیپلم میں، مَیں موٹی لگتی ہوں اور کُھلی ڈُلی، زیادہ لمبی قمیص میں جٹّی مٹیارن۔ کاجل نہ لگائوں تو بیمار سی دِکھتی ہوں اور لگا لوں تو آنکھوں میں چُبھن سی ہوتی رہتی ہے۔ میٹ لِپ کلر سے فریشنیس فِیل نہیں ہوتی، ڈارک گلاسی شیڈ میں بالکل رشتے کروانے والی آنٹی کا لُک آتا ہے۔ کم ہِیلز میں پارٹی کا تاثر ہی نہیں بنتا اور ہائی ہِیلز کے ساتھ تو آخری گھنٹا گزارنا عذاب ہوجاتا ہے، کھانےکی میز تک نہیں جایا جاتا۔ 

بالوں کا جُوڑا بنالوں، توچہرہ اتنا بڑا لگتا ہے، بلاوجہ ہی فیس پر پکّا پن آجاتا ہے، کُھلےچھوڑ دوں، تو مسلسل ایک الجھن سی رہتی ہے۔ اُف…ایک سے بڑھ کرایک پریشانی۔ اور…اتنا سب کچھ سوچنے، کرنے کے باوجود بھی نہ کبھی اپنی فائنل تیاری سے مطمئن ہوتی ہیں اور نہ ہی خُود کو کبھی کسی تصویر، مووی میں دیکھ کے خُوش ہوپاتی ہیں۔ ہمیشہ منہ بسورتےہوئے یہی کہتی ہیں ’’اللہ! ذرا اچھی نہیں لگ رہی مَیں…اب کبھی یہ رنگ نہیں پہنوں گی۔ اب کبھی اُس پارلر سےتیار نہیں ہوں گی۔ اب کبھی یہ ہیئراسٹائل نہیں بنوائوں گی۔ اب کبھی یہ شیڈ نہیں لگائوں گی…‘‘مطلب، ہر تقریب کے بعد ’’اب کبھی نہ کرنے والے کاموں‘‘ کی بھی ایک لامتناہی فہرست مرتب ہوجاتی ہے۔

مگر، سچ تو یہ ہےکہ عورت صرف اپنی آرائش و زیبائش ہی کے ضمن میں کنفیوژن کا شکار نہیں رہتی، اُس کے دیگر معاملاتِ زندگی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ بلکہ اکثر و بیش تر تو دوسروں کے حوالے سے بھی غیر مطمئن یا کسی نہ کسی الجھن ہی میں گرفتار دکھائی دیتی ہے۔ شاید عورت ذات کے ساتھ یہ افتادِ طبع، فطری طبعی میلان لازم و ملزوم ہے۔ وہ کسی نے کہا تھا ناں کہ ’’مَیں جیلی فِش بننا چاہتی ہوں۔ نہ دماغ، نہ دل، نہ آنکھیں، نہ تصوّرات و خیالات، نہ ضروریات و خواہشات، بس سمندر میں تیرتے رہو اور حسین نظر آئو۔‘‘ تو شاید خواتین کو اُن کا ہر دَم متحرک دماغ، اُس میں ہمہ وقت آنے والے نت نئے تصوّرات و خیالات، دل میں مچلتی آرزوئیں، خواہشات اور آنکھوں میں بسے ہزارہا خواب، سنہرے سپنے، مناظرکسی کل چین نہیں لینے دیتے۔ 

سکون سے رہنے، نچلا بیٹھنے نہیں دیتے۔ حالاں کہ یہ بھی سو فی صد سچ ہے کہ جنہیں ہم سے پیار ہوتا ہے، اُن کے لیے ہماری ظاہری شخصیت کچھ خاص اہمیت ہی نہیں رکھتی، اُن کی نگاہ ہمارے ’’سولہ سنگھار‘‘ پر جاتی ہی نہیں۔ اور جو ہمیں پسند ہی نہیں کرتے، جنہیں بہرصُورت ہمارے عیبوں ہی پر نگاہ رکھنی ہے۔ کوئی برائی نہ بھی دکھائی دے، کہیں نہ کہیں سےڈھونڈ نکالنی ہے، تو اُن کے لیے تو ہم سونے کے پانی سے دُھل کر بھی آجائیں تو سُننے کو یہی ملے گا ’’خالص نہیں ہے، 18 قیراط لگتا ہے‘‘۔ وہ ایک پوسٹ تھی ناں کہ ’’مَیں انسٹا پر ایک پکچر پوسٹ کروں تو20 لائیکس آتے ہیں۔ مگر مَیں وہی پکچر اسٹوری پرلگا دوں، تو200 ویوز ہوتے ہیں۔ مطلب، زیادہ تر لوگ مجھے پسند نہیں کرتے۔ مگر وہ مجھ پر نگاہ رکھتے ہیں۔‘‘ اور یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ دوسروں پر یہ اتنی کڑی نگاہ کیوں رکھی جاتی ہے۔

تو چلیں، اب آج کی بزم پر بھی نگاہ ڈال لیتے ہیں۔ ذرا دیکھیے تو بلڈ ریڈ رنگ میں ایمبرائڈرڈ لانگ شرٹ کے ساتھ شلوار کی ہم آمیزی ہے، تو ٹرکوائز اور منہدی رنگ کا امتزاج لیے پرنٹڈ سیپریٹس میں بھی قمیص، شلوار ہی کاجلوہ ہے۔ فیروزی رنگ پرنٹڈ آرگنزا شرٹ کے ساتھ بلیک کلر میں باٹم لیس سےآراستہ اسٹائلش سا ٹرائوزر ہے، تو سیاہ و سفید کے سدا بہار کامبی نیشن میں لانگ ایمبرائڈرڈ شرٹ کے ساتھ سفید ٹرائوزر، دوپٹّے کی ہم آہنگی کا بھی جواب نہیں اور پھر سیاہ و سفید شیڈ ہی میں جارجٹ کی سادہ نفیس سی میکسی کے تو کیا ہی کہنے۔

مَن مندر میں بسا رکھنے، دل سے چاہنے والوں کوتو کسی عذر، بہانےکےبغیربھی چاہنا، سراہنا ہوتا ہے، وہ تو اِن رنگ و انداز پہ سو جان سے فدا ہو کے کہیں گے ؎ یوں لہکتا ہے تِرے نوخیز خوابوں کا بدن…جیسے شبنم سے دُھلے تازہ گلابوں کا بدن…جب گُھلا بادِ صبا میں تیرے پیراہن کا لمس…اور بھی مہکا تروتازہ گلابوں کا بدن۔ مگر…ہمیں لگتا ہے کہ ’’ہماری ماڈل کی یہ تیر سیدھی مانگ اِس کے چہرے پہ کچھ خاص جچ نہیں رہی۔ غیرروایتی ملبوسات کے ساتھ روایتی چوکر بھی عجیب ہی لگ رہا ہے اور…اتنی سُونی، ویران آنکھیں…اللہ جانے، اندر خانے کیا روگ پال رکھا ہے، جو اتنی تیز لپ اسٹک لگا کر بھی چُھپائے نہیں چُھپ رہا۔‘‘ آپ کا کیا خیال ہے؟؟