• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست کے ڈھنگ دنیا بھر سے نرالے ہیں۔ یہاں پرانی غلطیوں کو نئے رنگ و روپ میں ڈھالنے اور دہرانے کے بعد یہ تصّور کر لیا جاتا ہے کہ اب کے اس کے نتائج پہلے سے مختلف ہوں گے۔ لیکن نتیجہ اسی تباہی کی شکل میں نکلتا ہے۔ جسے روکنے کے لیے یہ ساری کاوشیں کی جاتی ہیں پاکستانی سیاست میں ’’ غیر فطری ‘‘ مداخلت نے پاکستان کے وجود کو آدھا کردیا لیکن اس مداخلت کو نہ تو روکا گیا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی سبق سیکھا گیا ۔ پاکستان جو ، ایک معروف شفاف اور غیر جانبدار انہ جمہوری عمل کے ذریعے معرضِ وجود میں آیا تھا، وہاں اسی عمل یعنی جمہوریت کو سب سے زیادہ نشانہ بنا یا گیا۔ گویا یہ ایک گناہِ عظیم ہے کہ عوام کی رائے کو تسلیم کیا جائے۔

کبھی غیر جمہوری طاقتیں براہِ راست اقتدار پر قبضہ کر لیتی ہیں اور عوام کی پسندیدہ جمہوری قیادت کو یا تو پھانسی پر لٹکا دیتی ہیں یا جلاوطن کر دیتی ہیں یا پھر پسِ دیوار ِ زنداں مثال ِ عبرت بنا دیتی ہیں۔ کبھی وہ پسِ پردہ رہ کر اپنی مرضی کے بت تراشتی ہیں۔ انہیں بزعم خود مسیحائی کا درجہ دیتی ہیں اور ان کے مخالفین کو شیطان کے پجاری قرار دے کر قابلِ گردن زدنی ٹھہراتی ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے تسلسل کے ساتھ دہرایا جاتا ہے کہ پوری قوم ابتدا سے ایک دائرے کی شکل میں گھوم رہی ہے اور ارتقاء کے سفر سے محروم ہو چکی ہے۔ 21اکتوبر 2023کو سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کی وطن واپسی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی دکھائی دیتی ہے کہ اب فیصلہ سازوں نے ایک مرتبہ پھر میاں نواز شریف کو ’ ’ لاڈلہ‘‘ بنانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں ۔ کیونکہ جب انہوں نے کسی کو گرانا ہوتا ہے تو تب بھی قانون کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیںاور جب کسی کو ’’ بنانا ‘‘ ہو تا ہے تو تب بھی قانون کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ جب 2013سے لیکر 2017تک میاں نواز شریف کی حکومت کامیابی سے جاری تھی۔ تو محض اس خیال سے کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان ہونے والے ’’ میثاقِ جمہوریت ‘‘ کیوجہ سے کہیں ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط نہ ہوجائیں۔

ایک نئی پارٹی کو اقتدار میں لانے کا تجربہ کیا گیا۔ کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ 2013میں انتخابات ہارنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے تحفظات کے باوجود نہ صرف انتخابی نتائج تسلیم کر لیے بلکہ نئی حکومت کو احسن طریقے سے اقتدار منتقل کردیا۔ یہ ’’اچھائی ‘‘ بعض طاقتوں پر آنے والے دنوں کی ’’ برائی‘‘ بن کر نازل ہوئی کیونکہ اس طرح تو ملک میں جمہوری عمل بلا تعطل شروع ہو سکتا تھا۔ چنانچہ ’’ پروجیکٹ عمران‘‘ کے ذریعے ایک ایسے شخص کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ کیا گیا جو گزشتہ 22 سال سے اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کے غیر جمہوری حربے استعمال کررہا تھا۔

اس نے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے نام نہاد ریفرنڈم کی نہ صرف حمایت کی بلکہ میثاقِ جمہوریت کو مذاقِ جمہوریت قرار دے کر اسکی زبردست مخالفت کی۔ اس کے باوجود اسے عوام کی وہ حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ کہ وہ اپنے طور پر شفاف انتخابات میں کامیاب ہو سکتا۔ لیکن اسے برسرِ اقتدار لانے کے لیے دھرنوں اور احتجاجی سیاست کا لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اور نواز شریف کی حکومت کو محصور کرنے کے لیے نہ صرف نواز شریف کے خلاف اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے جیسے ’’ بھونڈے ‘‘ مقدمے بنائے گئے بلکہ ریاستی مشینری کے ذریعے 2018کے انتخابات میں کھلی دھاندلی کے ذریعے عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا۔ عمران خان کی اس قدر پشت پناہی کی گئی کہ وہ اقتدار میںآنے کے بعد حکومت کرنے کی بجائے اپوزیشن کو کچلنے اور جمہوری اقدار کو پامال کرنے میں مصروف ہوگیا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت ، معاشرت اور سیاست زمیں بوس ہو کر رہ گئی۔ یہاں تک کہ یہ تباہی 9مئی کے پرُتشدّد واقعات کی شکل میں رونما ہوگئی ۔ضرورت اس امر کی تھی کہ پاکستان کو ہمیشہ کیلئے اس گرداب سے نکالنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جاتا اور یہ تاثر دیا جاتا کہ غیر جمہوری قوتیں خود کو سیاسی عمل میں ’’ غیر جانبدار‘‘ رکھتے ہوئے ملک کو پائیدار جمہوری راستے پر گامزن کرنے کا آغاز کریں گی۔ لیکن افسوس سیاسی عمل کو کما حقہ جاری رکھنے کے بجائے اب اسٹیبلشمنٹ نے واضح طور پراپنے جانبدار انہ رویے سے میاں نواز شریف کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے اور جس طرح میاں صاحب کو آئین و قانون کے مروجّہ اصولوں کی پامالی کرتے ہوئے ہر طرح کی سہولت دیکر ان کے لیے مینارِ پاکستان پر جلسے کا اہتمام کیا گیاہے اس سے لگتا ہے کہ اب ’’ پروجیکٹ عمران ‘‘ کی طرح ایک مرتبہ پھر ’’ پروجیکٹ نواز شریف ‘‘ شروع کر دیا گیا ہے۔

میاں صاحب جو اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں پہلے بھی کئی مرتبہ ان کے منظورِ نظر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے جمہوری عمل کو سبوتاژ کیا۔ پیپلز پارٹی کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ کیا خصوصاََمحترمہ بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی کردار کشی کی مہم میں شامل رہے۔ جس طرح میاں نواز شریف کو ایک مرتبہ پھر ’’ مسیحا‘‘ بنانے کے عمل میںدیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔کیا اس سے پاکستان میں ’’ سیاسی استحکام ‘‘ آجائیگا؟ اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہے تو وہ جان لے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ جب تک تمام سیاسی جماعتوں کو بشمول تحریکِ انصاف لیول پلئینگ فیلڈ نہیں ملتی، پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ 9مئی کے واقعات میں ملّوث افراد کو ضرور کٹہرے میں لائیں مگر اس کی آڑ میں ایک نیا ’’ پروجیکٹ ‘‘ لانچ کرنے سے گریز کریں۔ کیونکہ صرف کرداروں کا نام بدلنے سے کہانی کا انجام نہیں بدل سکتا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین