• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اَدباء اور شعراء کرام، علم و دانش کی جامعات کے مانند تصوّر کیے جاتے ہیں۔ اُن کا کام وہاں سے شروع ہوتا ہے، جہاں تعلیمی، تحقیقی و فنی اداروں، خانقاہوں، بیت الحکمت و دانش گاہوں کا کام ختم ہوتا ہے۔ یہ ہستیاں اپنے علم و فکر اور دانش سے معاشرے میں لوگوں کو فنونِ لطیفہ کے حسن و نفاست، انسانی اقدار اور فضیلت سے بہرہ مند کرتی ہیں، جس سے تہذیبیں زندہ ہوتی، تاریخ پر چڑھی گرد و غبار صاف اور انسانی تاریخ و تہذیب بالکل صاف اور واضح نظر آنے لگتی ہے۔ 

برصغیر پاک و ہند کی مردم خیز دھرتی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی کوکھ سے بے شمار پارس و جواہر، علمائے کرام، مبلغین و محدّثین و مفکّرین، ادباء و شعراءنے جنم لیا، جنہوں نے تہذیب و ثقافت، تاریخ و مذہب، موسیقی و شاعری کی اصاف میں اعلیٰ اخلاقی اقدار اور مشرقی روایات کی پاس داری کرتے ہوئے نہ صرف کارہائے نمایاں انجام دیئے بلکہ قوم میں متوازن سوچ، زندہ دلی اور جوش و جذبہ بھی پیدا کیا۔ ایسی ہی نابغۂ روزگار ہستیوں میں عظیم مصنّفہ، اَدبی سلطنت کی شہزادی ’’قراۃ العین حیدر‘‘ کا بھی شمار ہوتا ہے۔

’’عینی آپا‘‘ کے نام سے پکاری جانے والی قراۃ العین حیدر برصغیر کی ادبی سلطنت کی سدابہار شہزادی اور ادبی اُفق کا تابندہ ستارہ تھیں۔ وہ20جنوری 1926ء کو علی گڑھ کی ایک علمی و ادبی شخصیت اوراردو کے اوّلین افسانہ نگار، سیّد سجاد حیدر یلدرمؔ کے گھر پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم ’’دہرہ دُون کانونٹ اسکول‘‘ سے حاصل کی، بعد ازاں، لکھنؤ یونی ورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ 

قراۃ العین حیدر نے 6برس کی عُمر میں پہلی کہانی ’’جگنو کی تلاش‘‘ لکھی اور گیارہ سال کی عُمر میں خیالوں کی دنیا سے وابستہ ہوکر لکھنے لکھانے کا کام شروع کردیا۔ فنِ موسیقی اور مصوّری سے بے انتہا شغف رکھنے والی، فنونِ لطیفہ کی دل دادہ، قرۃ العین حیدر کا فنی اسلوب، امیجری شاعری سے موسوم ہے، لیکن انہوں نے اسے نثر میں استعمال کیا۔ ابھی اُن کا ادبی سفر جاری ہی تھا کہ برصغیر میں تحریکِ آزادی کی لہر شدّت اختیار کرگئی، حالات یک سر تبدیل ہونا شروع ہوگئے اور 14اگست1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا، تو وہ بھی اہلِ خانہ کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان ہجرت آگئیں۔

پاکستان کے زرخیز اَدبی ماحول میں اُن کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ہجرت کے کچھ ہی عرصے بعدوہ پاکستان میں وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ ہوگئیں اور تاریخ کا عظیم ترین اور شہرئہ آفاق ناول ’’آگ کا دریا‘‘ اُنھوں نے پاکستان ہی میں تخلیق کیا۔ پاکستانی قواعد کے مطابق اُن دنوں کوئی سرکاری افسر حکومتی اجازت کے بغیر تصنیف و تالیف کا کام نہیں کرسکتا تھا، تو انہوں نے حکومتی اجازت کے بغیر ہی ’’آگ کا دریا‘‘ لکھا۔ ناول شائع ہوا، تو حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔ 

مارشل لا حکومت نے اُن کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کردی، جس پر اُنھوں نے احتجاج کیا، تو وزارتِ اطلاعات نے اُنہیں ناول کے بعض حصّے ایڈٹ کرنے کا حکم دیا۔ تاہم، اُنھوں نے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا اور بھارت جانے کا فیصلہ کرلیا۔ بعدازاں، 1961ء میں بھیگی آنکھوں اور سرد آہوں کے ساتھ پاکستان کو الوداع کہا۔ اس کے بعد وہ تازندگی بھارت ہی میں رہیں۔ 

بھارتی حکومت نے اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے نوازا۔ تاہم، پاکستان کی محبت اُن کے دل میں ہمیشہ جاگزیں رہی۔وہ سانس کی تکلیف میں مبتلا تھیں اور دہلی میں زیرِ علاج تھیں۔پاکستان سےاَدیب، شعراء ، دانش وَراور اہل قلم اُن سے ملنے جاتے تو اُن سے کہتیں’’ آپ لوگوں سے مل کر مَیں جیسے 16سولہ برس کی ہو جاتی ہوں۔‘‘

وہ ناول نگاراور افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین سوانح نگار بھی تھیں۔ اُنہوں نے اردو ادب کو ایک نیا اسلوب اور اچھوتی شناخت دی۔ اُن کی تصانیف میں ’’میرے بھی صنم خانے، 1949‘‘، ’’سفینۂ غمِ دل، 1952‘‘،’’پت جھڑ کی آواز، 1965‘‘، ’’روشنی کی رفتار، 1982‘‘، ’’چائے کے باغ، 1965‘‘، ’’آگ کا دریا، 1959‘‘، ’’پکچر گیلری‘‘، ’’چاندنی بیگم‘‘، ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘، ’’مرے بھی صنم خانے‘‘، ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ کے علاوہ ’’دلبر‘‘، ’’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو‘‘، ’’سیتا ہرن‘‘، ’’گردشِ رنگِ چمن‘‘ اور ’’آوارہ گرد‘‘ شامل ہیں۔ اپنے پہلے ناول ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ میں اُنھوں نے تقسیمِ ہند کے بعد 1947ء کے حالات کی بھرپورعکّاسی کی۔ بعدازاں،جتنے ناولز اور کہانیاں تحریر کیں، سب میں تقسیم ہند کا درد صاف نظر آتا ہے۔

اُن کے دو ناولز ’’آگ کا دریا‘‘ اور’’ آخرِ شب کے ہم سفر‘‘ کو اردو ادب کے شاہ کار مانا جاتا ہے۔ اُن کا مقبول ترین ناول آگ کا دریا، تاریخ، فلسفے اور رومانس کی آمیزش سے بھرپور ہے، جس کی ہرہر سطر سے درد، دُکھ اور پیار کی شعائیں، کرنیں سی برستی محسوس ہوتی ہیں۔ اس کلاسک ناول کا مطالعہ کرنے بعد قاری اس کے جادوئی اثر میں تحلیل ہونے سے نہیں بچ سکتا۔ عینی آپا نے اس ناول میں ہزار ڈیڑھ ہزار سال کی انسانی تاریخ کو ایک عہد کی شکل میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ پوری تاریخ براہِ راست تحت الشعور میں اُترنے لگتی ہے۔

اگرچہ قراۃ العین حیدر کا بنیادی حوالہ ناول نگاری ہی ہے، تاہم وہ افسانہ نگاری میں بھی کمال درجہ رکھتی تھیں۔ وہ برصغیر کے اس اَدبی قافلے کی مسافر تھیں، جس میں سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیض، حبیب جالب، اَمرتا پریتم، زہرہ نگاہ، سجاد ظہیر ، احمد ندیم قاسمی، مظہر الاسلام اور ساحر لدھیانوی جیسے شان دار ادباء اور شعراء نے اَپنے فکر وفن کے چراغ روشن کیے۔ قراۃ العین حیدر ایک نڈر اور بے باک لکھاری تھیں۔

انہوں نے اَپنے تجربات و حوادث کو معاشرے کے اصل رُوپ میں پیش کیا۔ تب ہی اُن کا شمار گزشتہ صدی کے عظیم ناول و افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اُردو زبان کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں، ذات کی دریافت اور علمی و ادبی شعور سے وقار عطا کرنے والی ’’عینی آپا‘‘ 21اگست 2007ء کو اکیاسی برس کی عُمر میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔ تاہم، اُن کے تخلیق کردہ ناولز، افسانے اور قاری کے تحت الشعور میں اُتر جانے والی اُن کی تحریریں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔