• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا اور اسرائیل کے خلاف ممکنہ جوابی کارروائی، ایرانی بحریہ کے پاس کیا آپشنز؟

 
—تصویر بشکریہ غیر ملکی میڈیا
—تصویر بشکریہ غیر ملکی میڈیا

ایرانی بحریہ کا شمار خطے کی اہم بحری قوتوں میں ہوتا ہے، امریکا اور اسرائیل کے خلاف ممکنہ جوابی کارروائی میں ایرانی بحریہ کے پاس آپشنز موجود ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایرانی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملے کے بعد ایران کے ممکنہ ردعمل کی جانب دیکھا جارہا ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب ایرانی پارلیمنٹ نے آبنائے ہُرمز بند کرنے کی منظوری دی۔ ان حالات میں ایرانی بحریہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

ایرانی بحریہ 18 ہزار 500 افسران و اہکاروں پر مشتمل ہے اور ایرانی بحریہ کے پاس 100 سے زائد مختلف اقسام کے جہاز اور آبدوزیں موجود ہیں جو خلیج فارس اور بحیرہ کیسپین میں ایرانی سلامتی اور مفادات کے تحفظ کے لیے موجود ہیں۔

گلوبل فائر پاؤر کی 2024ء کی رپورٹ کے مطابق ایرانی بحریہ دنیا میں145 بحری قوتوں میں 37ویں نمبر پر آتی ہے۔ گو کہ اس کا شمار سپر پاورز کے ساتھ نہیں ہوتا لیکن یہ متاثر کن صلاحیتوں کی حامل ہے۔

ایرانی بحریہ میں قابل ذکر تباہ کن جہاز موجود ہیں جو پریسیشن میزائل سے مسلح ہیں اور جاسوسی سمیت مختلف اقسام کے مشنز مکمل کرسکتے ہیں۔

ایران کے پاس کچھ برطانوی ساختہ اور کچھ مقامی طور پر تیار کیے گئے فریگیٹس بھی موجود ہیں جو مختلف بحری آپریشنز میں کارگر ہیں۔

ایرانی بحریہ کے پاس 19 سے 27 مختلف صلاحیتوں کی حامل آبدوزیں موجود جو ممکنہ طور پر قابل ذکر بحری آپریشنز کر سکتی ہیں، گو کہ ایران کے پاس عالمی سپر پاورز کی طرح ایٹمی آبدوز موجود نہیں تاہم ایران کی ڈیزل الیکٹرک آبدوزیں کروز میزائیلوں سمیت مختلف جدید ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔

اگست 2024ء میں ایرانی بحریہ نے 2640 میزائل اور ڈرونز سسٹم شامل کیے ہیں جو ریڈار پر نظر نہیں آتے۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید