• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: عِشاء حمزہ

ملبوسات: Fashion Hues pk

آرایش: SLEEK BY ANNIE

کوارڈی نیشن: وسیم ملک

عکّاسی: ایم۔ کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

ہمارے یہاں ’’خزاں رُت‘‘ ستمبر سے سرکتے سرکتے نومبر تک آن پہنچی ہے، پتا نہیں، اِس ’’گلوبل وارمنگ‘‘ نے ابھی اور کیا کیا کچھ دِکھانا ہے۔ کبھی اگست کے رخصت ہوتے ہی پیروں تلے زرد پتّوں کی چرچراہٹ سنائی دینے لگتی تھی، اب نومبر، دسمبر تک بھی پیلے پتّوں کے درختوں سے مصافحے، معانقے ہی ختم نہیں ہوتے، خاص طور پر کراچی میں تو کوئی موسم بھی اب اپنے وقت پہ آتا ہے، نہ جاتا ہے۔ اور موسمِ گرما تو اتنا طویل قیام فرماتا ہے کہ باقاعدہ ہاتھ جوڑ کے شہر بدر کرنے کی نوبت آجاتی ہے۔ جب کہ مُلک کے بدترین حالات، توانائی بحران، ڈانواں ڈول معیشت، ہوش رُبا منہگائی، بجلی، گیس کی دن دُونی، رات چوگنی بڑھتی قیمتوں کے باوجود طویل لوڈ شیڈنگز نے بھی اس موسمِ گرما کو انتہائی ہول ناک و اذیّت ناک بنا دیا ہے۔ 

بقول احمد ندیم قاسمی ؎ مَیں تجھے یاد بھی کرتا ہوں، تو جل اُٹھتا ہوں… تُونے کس درد کے صحرا میں گنوایا ہے مجھے … اے خدا! اب تِرے فردوس پہ میرا حق ہے … تُونے اس دَور کے دوزخ میں جلایا ہے مجھے۔ بہرکیف، جیسے تیسے گرمیوں کے طویل ایّام نے بالآخر موسمِ خزاں کو دھرتی پہ قدم تو دھرنے دیئے۔ درختوں کو پوشاکیں بدلنے کا آسرا تو ہُوا۔ سرما نے لمبی گہری نیند سے جاگ، انگڑائی تولی۔ کسل مندی ہی سےسہی، بیداری کا قصد تو کیا۔ اِک بار پھر اُس رُت کی آمد کی اُمید توجاگی کہ جس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ ’’اپنے ساتھ رہنے کے لیے اِس سے بہتر موسم اور کوئی نہیں۔‘‘

کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’جب ہم اندر سے خُوش ہوں، تو باہر کے موسموں کا اتنا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔‘‘ مگر بات تو پھر وہی ہے کہ دورِ حاضر میں کون ہے، جو واقعی اندر سے خُوش ہے، تب ہی تو باہر کے موسموں کا کچھ اور بھی شدّت سے اندازہ ہوتا ہے، خصوصاً تلخ موسموں کا۔ اور ایسے میں اگر حسین، خوش گوار رُتیں دَر کھٹکٹانے کو ہاتھ بڑھائیں، آہٹ ہی دینے لگیں، تو نہ صرف والہانہ خیرمقدم ہوتا ہے، بلکہ اُن کے تادیر ٹھہرے رہنے کی دُعائیں بھی مانگی جاتی ہیں۔ 

کتنے ہی لمحات کو امر کر لینے کی منصوبہ بندی ہونے لگتی ہے۔ کتنے ہی رُکے ہوئے کام انجام دینے، مِل بیٹھنے کے بہانے نہیں تراشے جاتے۔ وہ بیش تر تقریبات، پروگرام، پلانز جو کبھی موسمِ گرما کی طویل تعطیلات کی مناسبت سے ترتیب دیئے جاتے تھے، اب شدید گرمی، بدترین لوڈشیڈنگ کے عذابوں ہی کے سبب، خزاں و سرما رُت کی آمد تک مؤخر ہونے لگے ہیں اور شاید اِسی سبب اِن رُتوں کی ادائیں، ناز نخرے بھی کچھ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ خیر، کم وقت کے مہمانوں پر عِشوہ و غمزہ، چائو چونچلے جچتے بھی ہیں۔ پُرتکلف دعوتیں، ضیافتیں اُن کا حق بنتی ہیں کہ دو چار دن کی مہمان داری (اور میزبانی بھی وہ، جو دوطرفہ خُوشی کا باعث ہو) بھلا کِسے کھلتی ہیں۔ ہاں، ’’بَلائے جان مہمان‘‘ کوتو پھر ایک گلاس پانی پلانا بھی بھاری لگتا ہے۔

قصّہ مختصر، جی بھر آرائش و زیبائش، بنائو سنگھار بلکہ ’’سولہ سنگھار‘‘ کی رُت بالآخر آہی گئی ہے۔ تو اب جو بھی رنگ پہننے اوڑھنے کو دل کرتا ہے، پہنیں، اوڑھیں۔ جس انداز سے بھی سجنےسنورنے، اپنارُوپ سروپ سنوارنے، نکھارنے کی خواہش مچلتی ہے، اُسی طور خُود کو سنواریں، نکھاریں۔ کئی ماہ سے جس رنگ کی طرف ہاتھ بڑھانے کی ہمّت نہیں کر پارہی تھیں، جس لپ اسٹک شیڈ، آئی شیڈو، بلش آن کو چُھونے کا حوصلہ نہ ہوتا تھا، جس جیولری کو دیکھ کر پسینہ سا آنےلگتا تھا، سب نکال کر سنگھارمیز پررکھ لیں۔ اور ملبوسات کے رنگوں کے لیے تو کوئی قید بالکل ہی نہیں رہ گئی ہے۔ ذرا ہماری آج کی بزم ہی دیکھ لیں۔ 

کالے سیاہ سے لے کر ڈارک پرپل، دھانی، گہرے گلابی تک سب ہی کِھلے کِھلے، اُجلے، دبیز رنگوں سے پوری محفل کیسے آراستہ و پیراستہ سی ہے۔ دھانی رنگ میں خُوب صُورت ایمبرائڈرڈ کھدّر کا پہناوا ہے، تو سیاہ و سفید کے سدا بہار امتزاج میں مشینی کڑھت سے مرصّع کاٹن کی شلوار قمیص کا بھی جواب نہیں۔ فیروزی رنگ اسٹریٹ ٹرائوزر کے ساتھ کُرتا اسٹائل گندمی رنگ قمیص خوب لگّا کھا رہی ہے، تو ڈارک پنک شیڈ میں جارجٹ کی قمیص، ٹرائوزر کے ساتھ ہینڈ پرنٹڈ شیفون دوپٹّے کی جاذبیت کے بھی کیا ہی کہنے۔ گہرے جامنی رنگ میں لانگ شرٹ کے ساتھ اسٹائلش غرارہ ہے، تو سیاہ و سفید کے کامبی نیشن میں اسٹرائپڈ میچنگ سیپریٹس تو گویا اپنی مثال آپ ہے۔

ہماری بزم سے جو چاہیں، اُٹھائیں، اپنائیں اور بزبانِ فراق گورکھپوری گنگناتی رہیں ؎ رُکی رُکی سی شبِ مرگ ختم پر آئی… وہ پَو پَھٹی، وہ نئی زندگی نظر آئی… فضا تبسّمِ صبحِ بہار تھی لیکن… پہنچ کے منزلِ جاناں پہ آنکھ بَھر آئی… دِلوں میں آج تِری یاد مدّتوں بعد… بہ چہرۂ متبسّم، بہ چشمِ تر آئی… فضا کوجیسے کوئی راگ چیرتا جائے… تِری نگاہ دِلوں میں یوں ہی اُتر آئی… ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست… تِرے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی۔