سپریم کورٹ آف پاکستان میں کیس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور پی ایم ڈی سی کے وکیل حافظ عرفات احمد کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سرحد میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ کو ڈگری نہ دینے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔
کیس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پی ایم ڈی سی کے وکیل حافظ عرفات احمد سے استفسار کیا کہ کیا آپ کا نام حافظ ہے؟ جس پر وکیل پی ایم ڈی سی کے وکیل نے جواب دیا کہ نہیں میرا نام عرفات احمد ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے مزید پوچھا کہ آپ اپنے نام کے ساتھ حافظ کیوں لکھتے ہیں؟
جس پر وکیل نے جواب دیا کہ شعوری عمر میں پہنچنے سے پہلے حفظ کر لیا تھا تو نام کے ساتھ حافظ کا اضافہ ہو گیا۔
چیف جسٹس نے وکیل حافظ عرفات سے ایک سوال کیا کہ شناختی کارڈ پر بھی حافظ درج ہے؟
وکیل حافظ عرفات نے بتایا کہ شناختی کارڈ پر نام صرف عرفات احمد ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نام کے ساتھ حافظ لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ نے حفظ لوگوں کو بتانے کے لیے کیا ہے یا اپنے ایمان کے لیے؟ ایسے تو ثواب ضائع کرنے والی بات ہے۔
بعد ازاں عدالت نے درخواست پر عدالتی کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈگری نہ دینے کے کیس میں پی ایم ڈی سی کا مقدمہ بحال کر دیا۔
دورانِ سماعت طالبہ کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ طالبہ آسیہ توقیر نے سرحد یونیورسٹی سے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کیا لیکن خیبر میڈیکل یونیورسٹی نے ڈگری نہیں دی، سرحد یونیورسٹی میڈیکل پروگرامز کے لیے خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے منسلک ہے، پی ایم ڈی سی نے 2012ء میں نوٹیفکیشن کے ذریعے سرحد یونیورسٹی کی میڈیکل ڈگریاں روک دی تھیں۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران حکم دیا کہ آپ نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کو فریق نہیں بنایا، نہ ہی درخواست میں دستاویزات لگائیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ملک میں کتنی یونیورسٹیاں ہیں؟ پاکستان میں نیویارک اور لندن سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں، ملک میں عمارت دستیاب ہو نہ ہو، بس یونیورسٹی بنا دیتے ہیں، کچھ لوگوں نے یونیورسٹیز بنانے کی کاوش کی تھی، پتہ نہیں اس کا کیا بنا۔
بعد ازاں عدالت نے فریقین کو اضافی دستاویزات جمع کرانے کا وقت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔