• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

گورنمنٹ کالج لاہور کا آغاز دربار دھیان سنگھ کی حویلی یا پھر اس قدیم مغل حویلی سے ہوا۔جس پر رنجیت سنگھ نے قبضہ کرکے اسے اپنے وزیر ا عظم دھیان سنگھ کو دے دیا تھا ۔ اس حویلی اور اس کے ارد گرد جو بچی کھچی عمارات رہ گئی ہیں وہ چھوٹی اینٹ کی ہیں وہ چھوٹی اینٹ جو مغلوں نے اپنی تعمیرات میں استعمال کی تھی ۔راجہ دھیان سنگھ نے بڈھا دریا یعنی راوی دریا کی پرانی گزرگاہ کے پاس ایک عالی شان باغ تعمیر کرایا تھاجس میں آم اور جامن کے درخت خاصی تعداد میں لگائے گئے تھے۔اب تو لاہوریئے بھول چکے ہیں کہ کبھی لاہور میں بڈھا راوی دریا بھی تھا۔مینار پاکستان اس بڈھا راوی دریا کی گزرگاہ پر تعمیر ہوا ہے یہ بڈھا راوی جب جوان تھا تو مغلوں کے دور میں شاہی قلعہ کی دیوار کے ساتھ بہتا تھا اور شاہی قلعہ میں بادشاہ کی خواب گاہ کے نیچے سیڑھیاں ہیں جہاں پر ہر وقت ایک کشتی تیار کھڑی رہتی تھی کہ اگر شاہی قلعہ پر حملہ ہو اور بادشاہ کو بھاگنا پڑے تو اس راستے سے بھاگ جائے۔اب کیا معلوم کتنے بادشاہ اس راستے سے بھاگے یا ان کو بھاگنے کا موقع ہی نہ ملا۔

لاہور میں بادامی باغ اور مستی دروازہ کے باہر کبھی بادام، خوبانی، انار، امرود، نارنگی ، ناشپاتی ، آڑو، چکوترہ وغیرہ کے درخت تھے آج یہ شہر کا گندا ترین علاقہ بن چکا ہے۔اس جگہ پر انگریزوں نے لاہور کے شہریوں کے لئے پہلا واٹر ورکس بنایا تھا جہاں سے ایک بہت بڑے پائپ کے ذریعے پانی اوپر جاتا تھا جس کو پانی والا تالاب کہتے ہیں اس کے بارے میں پھر بات کریں گے۔لاہور کے پہلا واٹر ورکس کی عمارت آج بالکل ویران اور تباہ حال ہے بڑی تاریخی اور خوبصورت عمارت ہے۔

اپنی اصل بات کی طرف آتے ہیں گورنمنٹ کالج لاہور کا آغاز تحصیل بازار،حضرت سید مٹھاؒ کے مزار مبارک اور شاہی محلہ کے قریب واقع اس عمارت سے ہوا تھا جس کو دربار دھیان سنگھ کی حویلی کہتے ہیں۔رہی بات یہ کہ وہ حویلی راجہ دھیان سنگھ، جس میں اب گورنمنٹ کالج برائے خواتین چونامنڈی ہے اس میں کالج بعد میں آیا تھا اس کے بعد بھی گورنمنٹ کالج ایک اور عمارت میں کچھ عرصہ تک رہا جبکہ وہ اپنی موجودہ عمارت میں 1876ء میں آیا تھا ۔گورنمنٹ کالج لاہور اپنی موجودہ عمارت میں آنے سے قبل تین مختلف جگہوں پر رہا بلکہ انارکلی کے قریب بھی ایک عمارت میں کچھ عرصہ رہا۔ گورنمنٹ کالج کی اس جگہ پر کبھی گورا فوج کی ایک کمپنی بھی رہی ہے یہ جگہ کچہری روڈ سے کافی اونچی ہے ۔گورنمنٹ کالج لاہور کو جب دربار دھیان سنگھ کی عمارت میںقائم کیا گیا تو اس وقت اس عمارت میں ضلع اسکول بھی تھا اور ضلع اسکول کے ہیڈماسٹر مسٹر بیدی بھی گورنمنٹ کالج کی مالی مدد کرتے رہے تھے ۔گوروں نے اس تاریخی اور خوبصورت عمارت میں 1854ء میں ضلع اسکول قائم کیا تھا اس عمارت میں کبھی پنجاب سبھا کا دفتر بھی تھا پھر ضلع اسکول کا نام دیال سنگھ ہائی اسکول ہو گیا کبھی یہاں پر گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول لوئر مال کی بھی کلاسیں ہوتی رہیں۔یہ تاریخی عمارت ہے جس میں کئی تعلیمی ادارے کام کرتے رہے مگر آج اس عمارت کی زبوں حالی دیکھ کر انتہائی دکھ اور افسوس ہوتا ہے ۔ یہاںگورنمنٹ کالج، اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی ، ضلع اسکول، دیال سنگھ ہائی اسکول، سنٹرل ماڈل اسکول اور پھر سٹی مسلم لیگ ہائی اسکول رہے ۔قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ کے حکم پر یہ عمارت جموں و کشمیر اسٹیٹ پراپرٹی سے کرایہ پر حاصل کی گئی تھی حیرت کی بات یہ ہے کہ آج بھی اس تاریخی جگہ کے 16کنال جموں و کشمیر اسٹیٹ پراپرٹی کے ہیں جبکہ 10کنال جگہ 1982ء میں محکمہ تعلیم پنجاب نے جموں و کشمیر اسٹیٹ سے خرید لی تھی آج یہ تاریخی عمارت بھوت بنگلہ بن چکی ہے حالانکہ یہ حلقہ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا ہے لیکن انہوں نے بھی اپنے دور اقتدار میں اس عمارت پر کوئی توجہ نہیں دی ۔دوسری طرف گورنمنٹ کالج کی کسی انتظامیہ نے بھول کر بھی اپنے آغاز کی عمارت کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر کوئی حویلی دھیان سنگھ جہاں پر لڑکیوں کا کالج ہے اس کو گورنمنٹ کالج کے آغاز کی عمارت بتاتا ہے، دوسری افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک کسی نے بھی گورنمنٹ کالج کی اس تاریخی جگہ کا ذکر نہیں کیا حالانکہ اس تاریخی جگہ کی تصاویر گورنمنٹ کالج لاہور کے اولڈ ہال میں لگانی چاہئیں۔اب تو خیر کالج (اب یونیورسٹی ) کا اولڈ ہال بھی ویسا نہیں رہا۔ جو ہم نے آج سے پچاس برس قبل دیکھا تھا ہمیں تو اس بات کا بھی سخت دکھ ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور کی حضرت سید مٹھا ؒ کے مزار مبارک کے قریب والی عمارت کی حالت آج سے پچاس برس قبل بہت اچھی تھی اور 2005ء تک اس عمارت میں کلاسیں بھی ہوتی رہیں اور پھر صرف اٹھارہ برس میں اس تاریخی عمارت کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔کیا پتہ کون لینڈ مافیا اس تاریخی عمارت کے گرنے کا انتظار کر رہا ہے اور یہاں پر پلازہ بنانا چاہتا ہے۔ مٹی، گارے اور دالوں کی آمیزش سے بنی ہوئی عمارت آج بھی تھوڑے سے پیسوں سے بچائی جا سکتی ہے اور قابل استعمال ہو سکتی ہے مگر کون یہ نہیں کرنے دے رہا ؟اور کون اس عمارت کو تباہ کرنا چاہتا ہے ؟اس پر بات کریں گے تو لوگ برا مان جائیں گے۔

2005ء تک اس قدیم اور تاریخی عمارت کے تہہ خانے تک میں کلاسیںہوتی رہی ہیں پھر کسی کے حکم پر ان کلاسوں کو وہاں سے ختم کر دیا گیا حالانکہ بانی پاکستان قائداعظم ؒ کے حکم پر اس عمارت میں سٹی مسلم لیگ ہائی اسکول کی بنیاد رکھی گئی تھی۔اس تاریخی عمارت کا کبھی کل رقبہ 26کنال تھا اور اس میں 62کمرے تھے جہاں پر تدریس ہوتی تھی اس قدیم عمارت کے کئی حصوں پر لوگوں نے ناجائز قبضہ کرکے مکانات بنا لئے ہیں ۔(جاری ہے )

تازہ ترین