(گزشتہ سے پیوستہ)
سابق وزیر اعظم محمدنواز شریف 21اکتوبر 2023کو لاہور ائیر پورٹ پر پہنچےتو اسی مقام پر، جن لوگوں نے انہیں 2018ء کوگرفتار کیا تھا۔ آج وہی ان کو سیلوٹ کر رہے تھےنواز شریف کوبرطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر ہیتھرو ایئرپورٹ پر خدا حافظ کہنے آئے جب کہ ان کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میںسربراہ مملکت کا’’ پروٹوکول‘‘دیا گیا ۔ ایسا لگتاہے سب کچھ بدل گیا ہے نواز شریف نے اپنی سیاسی زندگی میںبار بار عروج وزوال دیکھا ہے، وہ اپنی سیاسی زندگی کی چوتھی اننگز کھیلنےکیلئے پاکستان واپس آئے ہیں، ان کی آمد سے ملک میں ایک بار پھر سیاسی گہما گہمی شروع ہو گئی ہے سیاسی حلقوں میں تاحال مینار پاکستان کےسائے تلے تاریخی جلسے سے نوازشریف کے خطاب کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ نیوز چینلز کے سٹوڈیوز میں بیٹھےسیاسی تجزیہ کاروں اور جلسہ میں شرکت کرنے والے کارکنوں کی آرا میں کوئی مطابقت نہیں بعض تجزیہ کاروں نے اپنی’’ غیر جانبداریت ‘‘ ثابت کرنے کیلئےیہ تو تسلیم کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا بہت بڑا جلسہ تھا،تاہم انہوں نے اب تک ہونے والے تمام جلسوں سے بڑا جلسہ تسلیم کرنے میں کنجوسی سے کام لیا۔ سوال یہ نہیں کہ جلسہ کتنا بڑا تھابلکہ اہم بات یہ ہے کہ نواز شریف نے جلسہ میں کیا تقریر کی ؟ جلسہ کے بعد ہونے والے فوری طور پر کئے گئے گیلپ سروے کے مطابق پاکستان کے عوام کی اکثریت نے نہ صرف نواز شریف کی تقریر کو سراہابلکہ بیشتر لوگوں کی رائے ہےکہ نواز شریف کی وطن واپسی سے مسلم لیگ (ن) مضبوط ہوگئی مسلم لیگ (ن) کو عام انتخابات میں کامیابی میں مدد ملے گی 30فیصد پاکستانیوں کی رائے ہے کہ نواز شریف ملک کو معاشی بحران سے نکال سکتے ہیں جبکہ 22فیصد پاکستانیوں نے عمران خان سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ نواز شریف کو واپسی پر ملنے والے پروٹوکول پر پی ٹی آئی تنقید کر رہی ہے کل تک شہباز شریف حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ باہم شیرو شکر رہنے اور پوری حکومت انجوائے کرنے والی جماعت پیپلز پارٹی ہر روز نوازشریف پر طنز کے تیر چلا رہی ہے بظاہر پی ٹی آئی نے نواز شریف کی واپسی کا خیر مقدم کیا ہے تاہم پی ٹی آئی کے بچے کھچے’’سیاسی لشکر‘‘ کے ایک لیڈر علی محمد خان کا کہنا ہے کہ نواز شریف پہلے جیل جاتے پھر انہیں عدالت سے ریلیف ملتا تو ان کا قد کاٹھ بڑھ جا تا۔پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری نے’’ خاموشی‘‘ اختیار کر کھی ہے تاہم پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دوسرے درجے کی قیادت مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ ایسا دکھائی دیتا نوا ز شریف کی ’’تاج پوشی ‘‘ہو رہی ہے۔نواز شریف پہلے پانچ افرادکاذکر کرتے تھے اب کہہ رہے ہیں کہ بدلہ نہ نہیں لوں گا ان کی نظر میں نواز شریف کا خطاب سی وی پیش کرنےکے مترادف تھا پیپلز پارٹی نواز شریف کے شو آف پاور سے خوش دکھائی نہیں دیتی اس کا کہنا ہے جلسہ میں لاہور سے کم لوگوں نے شرکت کی جب کہ صورت حال اس سے مختلف ہے ۔
نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’میں انتقام نہیں لینا چاہتا بلکہ ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں ‘‘ ان کا یہی انداز ان کے مخالفین کو پسند نہیں آیا ان کا خیال تھاکہ نواز شریف اسی طرح کا لب و لہجہ اختیار کریں گے جیسا ’’کپتان‘‘ اختیار کرتے تھے لیکن انہیں نواز شریف کے’’ مفاہمانہ طرز عمل ‘‘سے مایوسی ہوئی ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نےنواز شریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میںعدم پیروی کے باعث خارج ہونے والی رٹس بحال کر دی ہیں۔
جلسہ میں نواز شریف نے کپتان کا نام لئے بغیر طنزاً کہا کہ ’’تسبیح میرے پاس بھی ہے لیکن میں اس وقت اس کو پڑھتا ہوں جب مجھے کوئی نہ دیکھ رہا ہو‘‘ انہوں نے یہ شعر پڑھا؎
کہاں سے چھیڑوںفسانہ کہاں تمام کروں
وہ میری طرف دیکھیں تو سلام کروں
ان کے اس شعر میں ہماری 75سالہ سیاسی تاریخ کا نقشہ کھینچا گیا۔پھر انہوں نے غالب کا یہ شعر سنایا ؎
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفان کئے ہوئے
انہوں،نےافتخار عارف کا شعر بھی پڑھا؎
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیںجو واجب بھی نہیں تھے
نواز شریف نے دلچسپ انداز میں گفتگو کی ’’ہم 9مئی والے نہیں ،28مئی والے ہیں ‘‘ جلسہ گاہ کے سٹیج پر اس وقت جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے جب نواز شریف نے فرط جذبات سے مریم نواز کو گلے لگا لیا ، انہوں جذباتی انداز میں اپنے دکھ بیان کئے اور کہا کہ’’ میری والدہ اور اہلیہ سیاست کی نذر ہو گئیں وہ مجھے دوبارہ نہیں ملیں گے یہ ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھرے گا ، میں اپنے والد اور والدہ کو قبر میں نہیں اتار سکا،مجھے اپنی بیوی کی موت کی خبر جیل میں ملی جیلر نے میرے بیٹوںسے فون پر بات کرانے سے انکار کر دیا۔تحریک انصاف اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے بریانی ، قیمہ والے نان اور جنت کے ٹکٹ کا لالچ دے کر لوگوں اکھٹا کیا۔،
صورت حال البتہ اب یکسر تبدیل ہو گئی ہے نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد مسلم لیگی کارکنوں کا مورال بلند ہو گیا ہے ان کی واپسی سے پیپلز پارٹی خو ش دکھائی نہیں دیتی ۔اہم بات یہ ہے کہ تا حال آصف علی زرداری نے نواز شریف سے رابطہ کیا ہے اور نہ ہی ان کی جانب سے نواز شریف کی واپسی کا خیر مقدم کیا گیا ہے،تاہم ان کی پارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت مسلم لیگ (ن) کے خلاف مورچہ زن دکھائی دیتی ہے ۔سینیٹر محمداسحق ڈار نے پیپلز پارٹی کی تنقید کو بلاجواز قرار دیا اور کہا کہ نواز شریف جلد آصف علی زرداری سے ملاقات کرینگے، وہ تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے نواز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کیا ،دونوں رہنمائوں کے درمیان جلد ملاقات کا امکان ہے (جاری ہے)