• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس بحث کا اب کوئی فائدہ نہیں کہ جو الیکشن 6 یا 7 نومبر 2023ء کو ہونا تھا وہ 8 فروری 2024ء کو کیوں ہوگا؟

آئین پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی ختم ہونے کے بعد 90 دن میں الیکشن کرانا تھا لیکن افسوس کہ آئین پر عمل نہ ہو سکا۔ صدر مملکت نے بھی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ 

سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں ڈیڈ لاک ختم کرایا اور یوں 8 فروری 2024ء کو الیکشن کرانے پر اتفاق ہو گیا۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن اصل چیلنج یہ ہے کہ پاکستان میں الیکشن کے نام پر سلیکشن نہ ہو بلکہ ایک فیئر اینڈ فری الیکشن کا انعقاد کرایا جائے۔ 

اگر 2024ء میں ویسا ہی الیکشن ہوا جیسا 2018ء میں کرایا گیا تھا تو پاکستان آگے نہیں پیچھے جائے گا۔ 

گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام لٹریچر فیسٹیول میں بہت سے نوجوانوں نے مجھ سے یہ سوال پوچھا کہ کیا 8 فروری کا الیکشن فیئر اینڈ فری ہوگا؟ 

میں اس سوال کا جواب دینے سے کتراتا رہا لیکن جب نوجوانوں نے اصرار کیا تو مجھے یہ کہنا پڑا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ 8 فروری کا الیکشن فری اینڈ فیئر نہیں ہوگا لیکن اگر سپریم کورٹ چاہے تو اس الیکشن کو فری اینڈ فیئر بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ 

پہلے ذرا یہ بتا دوں کہ دھاندلی پاکستان کی ایک تاریخی حقیقت ہے۔

تاریخ بڑے کام کی چیز ہے۔ جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں ان کا جغرافیہ بدل جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال 1970ء کا الیکشن ہے۔ 7دسمبر 1970ء کو قومی اسمبلی کی 300نشستوں کے لئے الیکشن ہوا۔ عوامی لیگ نے 167 اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 86 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے اس کیخلاف فوجی آپریشن کردیا اور یوں بھارت کو پاکستان کیخلاف سازش کرنے کا موقع مل گیا۔ 

عوامی لیگ کے نوجوانوں نے مکتی باہنی کے نام سے ایک عسکری تنظیم بنائی اور بھارتی فوج کے ساتھ مل کر ریاست کے خلاف جنگ شروع کردی جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آیا۔ پاکستان کا جغرافیہ بدل گیا لیکن ہم نے تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی ٹھانے رکھی۔ 

1977ء کے الیکشن میں ایک دفعہ پھر دھاندلی کے خلاف شور مچا اور ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک چلا دی گئی۔ اس تحریک کا نتیجہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کی صورت میں نکلا۔ جنرل ضیاء نے مارشل لا نافذ کرنے کے آٹھ سال بعد 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کرائے۔جن کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیراعظم اور نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب بنے۔ 1988ء میں جنرل ضیاء الحق نے جونیجو کو برطرف کردیا کیونکہ وزیر اعظم نے صدر کے ایک مالی کی مدت ملازمت میں توسیع سے انکار کردیا تھا۔

جونیجو کو برطرف کرنے کے کچھ عرصہ بعد جنرل ضیاء ایک فضائی حادثے کا شکار ہوگئے جس کے بعد 1988ء کے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل نے پیپلز پارٹی کے مقابلے پر آئی جے آئی بنائی لیکن اسکے باوجود پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرلی۔ 

پنجاب میں آئی جے آئی کو اکثریت دلوائی گئی اور نواز شریف وزیر اعلیٰ بن گئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بمشکل دو سال بھی پورے نہ کئے تھے اور صدر غلام اسحاق خان نے 1990ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کو وزارت عظمیٰ سے برطرف کردیا۔ 

1990ء کے انتخابات میں ایک دفعہ پھر آئی ایس آئی نے دھاندلی کی جس کی تفصیل اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں بیان کی گئی ہے۔ پھر صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کو وزیر اعظم بنوایا اور تین سال بعد انہیں برطرف کردیا۔

1993ء کے انتخابات میں نواز شریف زیر عتاب تھے لہٰذا نتائج پیپلز پارٹی کے حق میں آئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں۔

1996ء میں انہیں دوسری مرتبہ برطرف کیا گیا اور 1997ء کے انتخابات میں نواز شریف کو پھر وزیر اعظم بنایا گیا۔ دو سال بعد جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو اقتدار سے باہر نکال دیا۔ 

نواز شریف جیل میں گئے اور محترمہ بینظیر بھٹو پہلے سے جلا وطن تھیں۔ 2000ء میں نواز شریف اس وقت کی حکومت سے ایک ڈیل کے ذریعہ سعودی عرب چلے گئے۔ 

2002ء میں مسلم لیگ ن کو توڑ کر مسلم لیگ ق بنائی گئی اور انتخابات کرائے گئے۔ انتخابات میں مسلم لیگ ق کو جتوایا گیا اور میر ظفر اللّٰہ خان جمالی وزیراعظم بن گئے۔ 

انہیں 2004ء میں فارغ کرکے پہلے چودھری شجاعت حسین اور پھر شوکت عزیز کو وزیراعظم بنایا گیا۔ 

2008ء کے انتخابات میں مشرف نے مسلم لیگ ق کو ہروا دیا کیونکہ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا چاہتے تھے لیکن پیپلز پارٹی نے الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن کےساتھ مل کر مشرف کی چھٹی کرا دی۔ 

2013ء میں انتخابات ہوئے تو نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے۔ عمران خان نے ان پر دھاندلی کا الزام لگایا اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیرالاسلام کی ملی بھگت سے نواز شریف کے خلاف دھرنا دیا۔ دھرنا تو کامیاب نہ ہوا لیکن عمران خان سپریم کورٹ کے ذریعہ نواز شریف کو نااہل کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ 

2018ء کے انتخابات میں جنرل قمر جاویدباجوہ نے عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کے لئے سیاست میں کھلم کھلا مداخلت کی۔ جب عمران خان وزیر اعظم بن گئے تو کچھ عرصہ باجوہ کی بہت تعریفیں کرتے رہے لیکن پھر انہیں سازشی قرار دے دیا۔ جس طرح جنرل ضیاء اپنے ہی لائے گئے جونیجو کے ساتھ نہ چل سکے اسی طرح باجوہ بھی اپنے ہی لائے گئے عمران خان کے ساتھ نہ چل سکے۔ 

یہ کوئی راز نہیں رہا کہ عمران خان کے لئے 2024ء کا الیکشن لڑنا بہت مشکل ہے۔ ان کے ساتھ وہی ہوگا جو 2018ء میں نواز شریف کے ساتھ ہوا۔

8 فروری 2024ء کو ایک اور دھاندلی زدہ الیکشن سے پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ اگلے الیکشن میں دھاندلی کا راستہ صرف سپریم کورٹ روک سکتی ہے۔ 

سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بنچ (جسٹس افتخار محمد چودھری، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین) نے 2012ء میں اصغر خان کیس میں جو فیصلہ تحریر کیا اس کے پیرا 99 میں واضح طور پر لکھا کہ بیوروکریٹس حکومت کے غیر آئینی احکامات ماننے کےپابند نہیں۔ 

آگے چل کر کہا گیا کہ آئی ایس آئی، ایم آئی یا آئی بی کو سیاست میں مداخلت اور انتخابات میں جوڑ توڑ سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اصغر خان کیس کا ذکر فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں بھی کیا۔ 

سپریم کورٹ اصغر خان کیس کے فیصلے کی روشنی میں ریاستی اداروں کی سیاست میں مداخلت کو روک کر 8 فروری کے انتخابات کو کافی حد تک فری اینڈ فیئر بنا سکتا ہے۔

تازہ ترین