تحریر: نرجس ملک
ماڈل: الیانا خان
ملبوسات: ثمرہ عامر
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
کوارڈی نیشن: عابد بیگ
عکاسی: عرفان نجمی
لےآؤٹ: نوید رشید
یہ سچ ہے کہ ہم زندگی میں اپنی بیش تر توانائیاں اورخلوص اُن لوگوں پر نچھاور بلکہ ضائع کرتے ہیں، جنھیں درحقیقت ہمارے جذبات و احساسات کی کچھ خاص قدر ہی نہیں ہوتی۔ بلکہ اُلٹا وہ ہماری اِن سب کاوشوں، خدمات کو اپنا حق سمجھنے لگتے ہیں۔ تو… یہ کوئی درست طرزِعمل نہیں، کیوں کہ دنیا کے ہر رشتے کے ضمن میں حقوق و فرائض کی ایک بڑی واضح اور مساوی تقسیم موجود ہے، خصوصاً اسلام کا ’’نظامِ حقوق و فرائض‘‘ تو گویا ایک یونیورسل چارٹر (عالم گیرمعاہدہ/ آئین/ فرمان)ہے، جس کے مطابق حقوق و فرائض دراصل ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔
اپنے نقطۂ نظر سے دیکھیں، تو وہ حقوق ہیں، جب کہ دوسرے کے نقطۂ نگاہ سے وہ فرائض کے زمرے میں آجاتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی خُود کو محض دوسروں کے لیے وقف کرنے کی خاطر اِس دنیا میں نہیں بھیجا گیا۔ زندگی اور اُس کے تمام تر ذائقوں پر آپ کا بھی اُتنا ہی حق ہے، جتنا کہ کسی بھی دوسرے شخص کا۔ وہ کیا ہے کہ ؎ سُنو کہ اب ہم گلاب دیں گے، گلاب لیں گے… محبّتوں میں کوئی خسارہ نہیں چلے گا۔ اور ؎ لوگ کہتے ہیں کہ اِس کھیل میں سَر جاتے ہیں… عشق میں اِتنا خسارہ ہے، تو گھر جاتے ہیں۔ سو، مقررہ حدود و قیود میں رہتے ہوئے ہر وہ عمل، ہر وہ امر، جو اپنے دل کی خُوشی و اطمینان کا سبب بنتا ہو، انجام دینے میں ہرگز کوئی قباحت نہیں۔
خواتین اور بنائو سنگھار گویا لازم و ملزوم ہیں۔ صنفِ نازک ہو اور آرائش و زیبائش کی خواہش نہ رکھتی ہو، یہ زیادہ حیران کُن بات ہے، بجائے اس کے کہ عورت زیب و زینت کے بہانے تراشے، مواقع ڈھونڈے اور پھر خُوب سج سنور کے، بَن ٹھن کے اِترائی اِترائی پِھرے۔ کرشن ادیب کا شعر ہے کہ ؎ شوکیس میں رکھا ہوا عورت کا جو بُت ہے…گونگا ہی سہی، پھر بھی دل آویز بہت ہے۔ اور شکیل جمالی نے کہا کہ ؎ ابھی روشن ہوا جاتا ہے رستہ…وہ دیکھو ایک عورت آرہی ہے۔ جب کہ مجید امجد نے تو’’عورت‘‘ کے عنوان سے ایک نظم میں پوری عورت ہی نظم کر ڈالی۔ ؎ تُو پریم مندر کی پاک دیوی تُو حُسن کی مملکت کی رانی …حیاتِ انساں کی قسمتوں پر تِری نگاہوں کی حُکم رانی…جہانِ الفت تِری قلم رو، حریمِ دل تیری راج دھانی…بہارِ فطرت تِرے لبِ لعل گُوں کی دوشیزہ مسکراہٹ… نظامِ کونین تیری آنکھوں کے سُرخ ڈوروں کی تھرتھراہٹ… فروغِ صد کائنات تیری جبین سیمیں کی ضوفشانی…تِری نگاہوں کے سحر سے گُل فشاں ہے شعر و ادب کی دنیا…تِرے تبسّم کے کیف سے ہے یہ غم کی دنیا، طرب کی دنیا… تِرے لبوں کی مٹھاس سے شکریں ہے زہرابِ زندگانی… تِرا تبسّم کلی کلی میں، تِرا ترنّم چمن چمن میں…رموزِ ہستی کے پیچ و خم تیرے گیسوؤں کی شکن شکن میں…کتابِ تاریخِ زندگی کے ورق ورق پر تِری کہانی۔
تو سمجھیں، عورت اور سولہ سنگھار کا تو جیسے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اور اگر کوئی دوسروں کوسُکھ شانتی دینےکی خاطر یہ جنم جنم کا ساتھ چھوڑنے پر بھی آمادہ ہوجائے، اپنی سرشت، فطرت و جبلّت سے برسرِپیکار ہو۔ آرائش و زیبائش کی اپنی ازلی وابدی خواہش تک سے دست بردار ہونے لگے، تو سوچیں، یہ کتنی بڑی قربانی ہے۔ اور پھر بندہ جس کے آرام و سُکون، سُکھ چین کے لیے یوں اپنا آپ بُھول بیٹھا ہو، اُسے ذرا قدر و احساس بھی نہ ہو، تو کس قدر شدید دُکھ ہوتا ہے۔ وہ کسی نے کہا تھا ناں کہ ’’پیچھے ہٹنے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے، جب آپ کے آگے بڑھنے کو ’’فار گرانٹڈ‘‘ لیا جانے لگے۔‘‘ تو بس، تھوڑا پیچھے ہٹیں اور ہماری آج کی بزم میں سےاپنے لیے کچھ بھی منتخب کر کے خُوب بنیں سنوریں اور جی بَھر خوش ہوں۔
ذرا دیکھیے، سیاہ رنگ کھاڈی نیٹ پر ہینڈ ایمبرائڈری کیا غضب ڈھا رہی ہے۔ باٹل گرین پہناوے پر ہم رنگ سیکوینس ورک کی جاذبیت ہے، تو آف وائٹ شرٹ پر فون رنگ سے حسین سیکوینس، موتی ورک کا بھی جواب نہیں۔ مسٹرڈ رنگ میں پرنٹڈ میچنگ سیپریٹس کا انتحاب لاجواب ہے، تو چکن کاری میں خُوب صُورت پلین ڈریس پرکٹ ورک اسٹائل ایپرن کی تو بات ہی نرالی ہے۔ گویا ہر انداز ہی اپنی جگہ منفرد و یکتا ہے۔
جوش ملیح آبادی کی ’’حُسنِ بیمار‘‘ کے کچھ مصرعے ہیں ؎ کیا غضب ہے، حُسن کے بیمار ہونے کی صدا…جیسے کچّی نیند سے بیدار ہونے کی ادا…انکسارِ حُسن پلکوں کے جھپکنے میں نہاں…نیم وا بیمار آنکھوں سے مروّت سی عیاں…الاماں آنکھوں کی نیم افسردہ سی افسوں گری…ایک دھندلا سا تبسّم، اِک تھکی سی دلبری…چوڑیاں ڈھیلی، دلائی پرشکن، ماتھے پہ ہات…لب پہ خُشکی، رُخ پہ سوندھا پَن، نظر میں التفات…ہلکی ہلکی جھلکیاں رخسار پر یوں نُور کی…جیسے گُل پر صبحِ کاذب کی سہانی چاندنی…حُسن یوں کھویا ہوا سا بزمِ محسوسات میں…جیسے دونوں وقت ملتے ہوں بَھری برسات میں…جیسے کہرے میں کوئی تابندہ منظر دُور کا…جیسے پچھلی رات کےسینےپہ ڈورا نُور کا…ایسے اضمحلال پردنیا کی برنائی نثار…ایسی بیماری پراعجازِ مسیحائی نثار۔ تو بس بھئی، ہماری یہ آج کی بزم، سب رنگ و انداز ایسے ہی کسی حُسنِ بیمار و سوگوار کے نام ہیں۔