• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے او آئی سی کے سربراہی اجلاس کیلئے تاشقند روانگی سے قبل وزیراعظم ہائوس میں جس پریس کانفرنس سے خطاب کیا، اس سے برادر ملک افغانستان سے شکووں کا تاثر نمایاں ہے جبکہ بعض مطالبات بھی کئے گئے جو پاکستان میں دہشت گردوں کی دراندازی روکنے کیلئے ضروری معلوم ہوتے ہیں۔ کچھ وضاحتیں بھی ہیں جن سے پاکستان میں مقیم تمام غیر قانونی مقیم افراد کے انخلا کے عمل کا جواز سامنے آتا ہے۔غیر قانونی مقیم افراد میں غالب تعداد افغانوں کی ہے۔ قبل ازیں افغانستان سے آنے والے بعض بیانات کے لب و لہجے سے بھی کابل اسلام آباد کشیدگی کا تاثر سامنے آتا ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نے لاکھوں افغان باشندوں کو سوویت یونین کی فوجی مداخلت اور پھر امریکی اتحادی حملے کے وقتوں میں پناہ دی۔ کئی عشروں تک ان کی میزبانی کی، ان کے اخراجات برداشت کئے، ان کے بچوں کی تعلیم سمیت کئی معاملات میں اپنے محدود وسائل کا خاصا حصہ صرف کیا مگر پناہ گزینوں کی آڑ میں جو دوسرے افراد بڑی تعداد میں آئے اور جن کے پیچھے دیگر ممالک سے آنے والوں کو چھپنے کا موقع ملا ان کا بوجھ سنبھالنا پاکستان جیسے ملک کے لئے مشکل تر ہوچکا ہے۔ افغانستان سے امریکہ کے انخلا اور اگست 2021ء میں عبوری کابل حکومت کے قیام کے بعد پاکستانیوں کو قوی امید تھی کہ پاکستان مخالف گروپوں خصوصاً تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ پچھلے دو برسوں میں 2267پاکستانی شہریوں کی جانیں اس اندوہناک خونریزی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں جس کے ذمہ دار تحریک طالبان کے دہشت گرد ہیں جو افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر بزدلانہ حملے کر رہے ہیں۔ کابل میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد یہ یقین دلایا گیا تھا کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ مگر صورتحال اسکے برعکس نظر آرہی ہے اور کچھ عرصے سے دہشت گردوں کے حملے تیز ہوگئے ہیں جن کے نتیجے میں اور جن سے نمٹنے کے دوران سیکورٹی فورسز کے جوانوں اور افسران کی شہادتیں ہوئیں جبکہ سویلینز پر حملوں میں بھی متعدد افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ نگراں وزیراعظم کی پریس کانفرنس کا پس منظر اور موضوع مذکورہ حقائق ہی تھے۔ انوار الحق کاکڑ کے مطابق 2023ء میں ایک دہشت گردانہ حملے میں 100سے زائد افراد کی شہادت کے بعد وزیر دفاع کی قیادت میں اعلیٰ سطح وفد نے افغانستان کا دورہ کیا جس نے عبوری افغان حکومت کو پاکستان کے شدید تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستان یا ٹی ٹی پی میں سے ایک کو چننے کا دوٹوک عندیہ دیا۔ افغانستان میں موجود پاکستان کو مطلوب سرکردہ دہشت گردوں کی فہرست دی گئی مگر عبوری حکومت کی بار بار یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں کیخلاف کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ بلکہ چند مواقع پر تو دہشت گردوں کی سہولت کاری کے واضح ثبوت بھی سامنے آئے۔ وزیراعظم کی پریس کانفرنس سے وہ پس منظر واضح ہوگیا ہے جو کابل اور اسلام آباد میں مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔ افغانستان برادر ملک ہے، وہاں سے امریکی فوجوں کے انخلا اور موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے میں اسلام آباد کا ایک کردار ہے ان حالات میں ایسا لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس سے کشیدگی میں کمی ہو۔ دونوں ممالک کے درمیان رابطوں اور ملاقاتوں کا ایک میکنزم بنا لیا جائے تو اسلام آباد اور کابل کے باہمی تعلقات اسی طرح خوش اسلوبی سے جاری رکھنے کی صورت پیدا ہوسکتی ہے جس طرح دنیا بھر میں دیگر خود مختار ممالک کے درمیان باہمی تعلقات چلائے جاتے ہیں۔

تازہ ترین