• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1935ء ایکٹ کے تحت جداگانہ انتخاب کے طریق پر 1937ء کے اوائل میں صوبائی انتخابات ہوئے جن میں کانگریس سات صوبوں میں وزارتیں بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ اِس پر پنڈت جواہر لال نہرو نے مارچ میں فیض پور کے جلسۂ عام میں پرلے درجے کی ہندوانہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا جہاں شیواجی کے نام پر صدر دَروازہ اَور دِیگر مذہبی پیشواؤں کے حوالے سے مختلف دروازے بنائے گئے تھے۔ وہ اِس جلسے کی شان و شوکت دیکھ کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے اور پکار اُٹھے کہ ہندوستان میں صرف دو طاقتیں ہیں: ایک کانگریس اور دُوسری برطانوی حکومت۔ قائدِاعظم نے ایک بیان کے ذریعے فوراً ٹوکا کہ تیسری طاقت بھی موجود ہے اور وُہ ہے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ۔ اُنہوں نے یہ چیلنج بھی دیا کہ کانگریس آئندہ کوئی ضمنی انتخاب جیت نہیں سکے گی اور اَیسا ہی ہوا۔ یوپی میں چودہ نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جو سارے کے سارے مسلم لیگ نے جیت لیے۔مسٹر گاندھی نے وزارتیں سنبھالنے سے پہلے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ پہلے اِس امر کی ضمانت دی جائے کہ 1935ء کے ایکٹ میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر گورنروں کو جو خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں، وہ اِستعمال نہیں ہوں گے اور کابینہ کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ وائسرائے ہند نے کانگریس کے دباؤ میں آ کر علانیہ اور خفیہ طور پر یقین دہانیاں کرائیں جن کے بعد کانگریس نے وزارتوں کی ذمےداریاں سنبھال لیں۔

اُس نے وزارتیں کیا سنبھالیں کہ چاروں طرف احتجاج کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ دراصل گول میز کانفرنس کے دوران گاندھی یہ مطالبہ کرتے رہے تھے کہ آئینی تصفیہ تو بعد میں ہوتا رہے گا، پہلے اقتدار کانگریس کے حوالے کر دیا جائے۔ اُن کا یہ بھی موقف تھا کہ ہندو مسلم اختلافات کی سرے سے کوئی حقیقت نہیں۔ وہ تو انگریزوں کی اِس پالیسی کی پیداوار ہیں کہ ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘۔ جونہی انگریزی حکومت ختم ہو گی، تو تمام فرقہ وارانہ اختلافات ازخود ختم ہو جائیں گے۔متعصب ہندو لیڈروں کی طرف سے گاہے گاہے یہ نعرے بھی بلند کیے جا رہے تھے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے، چنانچہ کانگریس نے بڑی جلدبازی میں ایسے سیاسی، انتظامی، تعلیمی، قانونی، اقتصادی اور ثقافتی منصوبے نافذ کیے جن پر برِصغیر کے مسلمان بلبلا اٹھے۔ مسلم لیگ نے کانگریسی وزارتیں بن جانے کے آٹھ ماہ بعد پیرپور کے راجہ سیّد محمد مہدی کی صدارت میں 2مارچ1938ء کو تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جس نے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مفصل رپورٹ 15نومبر1938ء کو مسلم لیگ کی ہائی کمان کو پیش کی۔بعدازاں صوبہ بہار کے مسلمانوں پر توڑے جانے والے مظالم کے بارے میں ’’شریف رپورٹ‘‘ مارچ1939ء میں شائع ہوئی۔ خون منجمد کرنے والے واقعات میں انتظامیہ اور عدلیہ براہِ راست ملوث پائی گئیں۔ اُنہی دنوں آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس نے 1938ء میں نواب کمال یار جنگ کی صدارت میں کمیٹی تشکیل دی جس نے کانگریس کی مسلم دشمن تعلیمی پالیسی کا پورا پوسٹ مارٹم کیا اور مسلمانوں کی تہذیبی اور سماجی قدروں کے تحفظ کے لیے قابلِ عمل تجاویز بھی پیش کیں۔

کانگریس کی تعلیمی پالیسی، واردھا اسکیم اور جودھیا مندر اسکیم پر مبنی تھی۔ واردھا اسکیم گاندھی جی کی رہنمائی میں تیار ہوئی تھی۔ اُس میں طے کیا گیا تھا کہ سات سے چودہ سال کے بچوں کو جبری طور پر تعلیم دی جائے گی اور اُن کے ذہنوں میں ہندوستان کی عظمتِ رفتہ کا گہرا نقش ثبت کیا جائے گا۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی تصنیف ’تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان‘ میں اُس تعلیمی پالیسی کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا تھا۔ اُن کے تجزیے کا لُبِ لباب یہ تھا کہ ’’اسکیم بنانے والوں کے پیشِ نظر مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو آپس میں ملا کر ایک سماج تیار کرنا تھا۔ اِس کے لیے وہ (1) ہر مذہب کی ایسی تعلیمات بچوں کے ذہنوں سے محو کرنا ضروری سمجھتے تھے جو مذہبی انفرادیت پیدا کرتی ہوں۔ (2) سارے مذاہب کے متعلق یہ نظریہ بچوں کے ذہنوں میں بٹھانا چاہتے تھے کہ اُن کے درمیان کوئی زیادہ فرق نہیں پایا جاتا۔ وہ سب ایک ہی ہیں۔ (3) وطن پرستی اُن میں پیدا کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ مذہب کی بنیاد پر الگ الگ رہنے کے بجائے ایک دوسرے سے پیوست ہو جائیں۔ (4) ہندوستان کی عظمت ِ رفتہ دل میں بٹھانا چاہتے تھے کہ اُن میں قومی افتخار کے جذبات ایک ہی سرچشمے یعنی ہندوستان کے ماضی سے پیدا ہوں اور بیرون ہند کی تاریخ سے اُن کے جذبات کا تعلق یکسر منقطع ہو جائے۔‘‘اِس تعلیمی نظریے کو عملی شکل دینے والے ڈاکٹر ذاکر حسین نے ایک ایسا نصاب تیار کیا جس میں مسلمانوں کے پیغمبر اور مذہبی پیشوا، عام بڑے لوگوں کی صف میں نظر آتے ہیں۔ کہیں کہیں اُنہیں گویّوں کے ساتھ جگہ دی گئی۔ اِس نصاب کے ذریعے تعلیم پانے والے مسلمان بچے یہ نہیں جان پائیں گے کہ حضرت محمد ﷺ محبوبِ خدا اور رَحمۃ للعالین ہیں۔

اِس اسکیم کی تیاری کا کام 30جولائی1937ء سے شروع ہوا اَور دِسمبر میں سی پی صوبے کی کانگریس اسمبلی پارٹی نے اِس کی منظوری دی۔ اسمبلی کے چودہ مسلم ارکان نے اِس کے خلاف ووٹ دیے۔ اُن کے علاوہ ڈاکٹر کھارے اور کئی ہندوؤں نے بھی اِس کی مخالفت کرتے ہوئے اِسے مسلمانوں کے لیے تباہ کن قرار دِیا۔ دوسری اسکیم کے تحت مدرسے کا نام مندر تجویز کیا گیا حالانکہ مندر سے واضح مراد ہندوؤں کی عبادت گاہ ہے۔ اِس اسکیم کا مقصد بھی یہی تھا کہ بچوں کے ذہنوں میں متحدہ قومیت کا تصوّر پوری طرح راسخ کر دیا جائے۔ اِس مقصد کی تکمیل کے لیے گاندھی کی مورتی کے سامنے پوجا پاٹ کی جاتی اور ہندوؤں کا مذہبی گیت بندےماترم گایا جاتا۔ لباس میں دھوتی شامل ہوتی اور یہ سب کچھ مسلمان بچوں کے لیے بھی لازمی تھا۔ یہ ’’واردھا‘‘ اور ’’جودھیا مندر‘‘ اسکیمیں دراصل شدھی کی اسکیمیں تھیں۔ کمال یار جنگ رپورٹ میں واضح طور پر یہ نشان دہی کی گئی کہ کانگریس کی قیادت بظاہر مذہبی آزادیوں کا پرچار کرتی اور تمام شہریوں کو یکساں حقوق دینے کی دعوےدار ہے مگر اِس کی تمام تر خواہش اور کوشش (خدانخواستہ) اسلام کا وجود ختم کرنا ہے۔ اِن تحقیقاتی رپورٹوں نے مسلمانوں کو بہت بڑے خطرے کا احساس دلایا اَور اُن کے اندر اَپنے دین اور اَپنی تہذیب کے تحفظ کا جذبہ ایک نئی شان سے بیدار ہوا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین