• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں یہ پہلے بھی عرض کرچکا ہوںکہ امریکہ کی کمیونسٹ پارٹی نے عالمی اقتصادی بحران اور کسادی بازار پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ مارکسسٹ لینن ازم کا دور پھر سے آگیا ہے۔ موجودہ عالمی اقتصادی بحران کارل مارکس اور فریڈ رک اینگلز کی پیشن گوئی کے عین مطابق ہے اور اب دنیا کو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہمارا وقت دوبارہ آپہنچا ہے۔ امریکی کمیونسٹ پہلی بار ’’ دفاعی پوزیشن‘‘ سے باہر آچکے ہیں، ہم اپنی دنیا تخلیق کرناچاہتے ہیں یہ ایسی دنیا ہوگی جو چند افراد کے فائدے اور خوشی کے بجائے معاشرے کے تمام طبقات کیلئے آسودگی اور راحتیں لیکر آئے گی ۔

1886میںامریکہ کے مزدوروں نے اپنے لہو سے یوم مئی کی تحریک کا آغاز کیاتھا وہ ایک نئے ولولے کے ساتھ ایک نئے سفر پر نکلے تھے ان دنوں ان کیلئے اس نوع کے مطالبات بھی نہایت عجیب اور انوکھے قرار دئیے جاتے تھے مثلاً مزدوروں سے جانوروں کی مانند بلکہ ان سے بھی بدتر طریق وحالات میں کام نہ لیا جائے۔انہیں اتنی اجرت دی جائےکہ وہ جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔انہیں بھی تنظیم اور احتجاج وجدوجہد کا حق دیاجائے۔

بنیادی طور پر یوم مئی کی تحریک کے یہی تین مطالبات تھے یعنی(1) اوقات کار میں کمی(2) اجرتوں میں اضافہ(3)تنظیم کا حق۔دوسرے مطالبات انہی عنوانات کے ضمن میں آتے تھے۔ یوم مئی مزدوروں کی انقلابی جدوجہد کا تاریخی سنگ میل ہے یہ محض ایک تقریب نہیں بلکہ تحریک ہے ایک ایسی تحریک جو محنت کشوں کے خون میں ڈوب کر ابھری اور جو حق وانصاف کی جدوجہد کرنے والوں کو گولیوں کی بوچھاڑ، بموں کے دھماکوں اور پھانسی کے تختوں کی یا ددلاتی ہے۔ یوم مئی ایک تہوار بھی ہے مگر نہ غم کا تہوار اور نہ خوشی کا، بلکہ یہ تجدید عزم وعہد کا دن ہے رنگ ونسل سے بالاتر دین ودھرم سےاونچا۔یہ ایک علامت ہے جہد انصاف و مساوات کی ایثار قربانی کی اور کٹھن ودلیرانہ جدوجہد کی جسے جبروتشدد کے دیوتا اپنے گھناونے ہتھکنڈوں کے باوجود دبا نہ سکے، مٹا نہ سکے اور ہرا نہ سکے۔محنت کشوں کےا س عالمی تہوار کوکالے اور گورے سب ایک ہوکر مناتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ شکاگو کے بازاروں اور گلیوں میں جو خون بہاتھا وہ نہ کالا تھا نہ گورا بلکہ سرخ تھا محض سرخ بقول قثیل شفائی؎

جدا جدا ہیں صورتیں لہو کا رنگ ایک ہے

اور جب مزدوروں نے اس سرخ لہو میں ڈوبے ہوئے پرچم لہرائے تویوم مئی کا پیغام تمام جغرافیائی حدود کو توڑ کر ساری دنیا میں گونج اٹھا اور بین الاقوامی انسانی برادری کے رشتے استوار کرگیا اور دنیا کے کونے کونے میں مزدور پکاڑ اٹھے، امریکی مزدوروں کا لہو ہمارا لہو ہے اور دنیا بھر کے محنت کشوایک ہوجاو۔یوم مئی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے دلوں میں خوف اور دنیا بھر کے مزدوروں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ مستقبل ہمارا ہے چنانچہ اس روز لندن سے لاہور تک اور واشنگٹن سے لیکر مراکش تک ساری دنیا کے مزدور یوم مئی کے شہدا کی یا دمناتے اور ان کے لہو کی حرارت اور مجاہدانہ جدوجہد کے تذکروں سے اپنے سینوں کو گرماتے ہیں۔

انیسویں صدی کا صنعتی معاشرہ جو ظالمانہ جاگیرداری سماج کی کوکھ سے پیدا ہوا مزدوروں کے مطالبات کو خاطر میں نہ لایا اس کے برعکس اس نے مزدوروں کی آواز کچل دینے کی کوشش کی لیکن اس کی تمام کوششیں بے سود رہیں۔ صنعتی سرمایہ داروں نے زیادہ سے زیادہ منافع اور کم سے کم خرچ کیلئے ابتدا سے ہی محنت کش انسانوں کا استحصال شروع کردیا تھا قلیل ترین معاوضے پر مزدور بیس بیس گھنٹے روزانہ کام کرنے پر مجبور تھے سہولتوں کا تصور تک ناپید تھا۔ فیکٹریاں جانور کے باڑوں کی مانند تھیں۔ جن میں مزدوروں کو سورج نکلنے سے بہت پہلے دھکیل دیا جاتا تھا اور رات گئے نکالا جاتا تھا، دروازے باہر سےمقفل ہوتے چنانچہ آتشزدگی کی بہت سے وارداتوں میں ان گنت مزدور اندر ہی جل کر راکھ ہو جاتے۔ ان ہولناک اوقات کار اور بدترین حالات کے خلاف احتجاج اور جدوجہد کو بے رحم طاقت سے کچلا جاتا اور فیکٹری کا مالک بڑی معصومیت سے اپنے موقف کا اعادہ کرتا کہ ’’مزدور بیس گھنٹے کام کرنے کا پابند ہے‘‘۔ انیسویں صدی کے پہلے نصف حصے میں اوقات کار کم کرکے دس گھنٹے مقرر کرنے کی تحریک امریکہ میں شدت اختیار کی گئی چنانچہ اس مطالبے کی حمایت میں 1827ء میں فلاڈیلفیا کے مزدوروں نے اور 1832ء میں بیکریوں میں کام کرنیوالے مزدوروں نے ہڑتال کی، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے محنت کشوں کے ترجمان کنگ سینئر ایڈووکیٹ شکاگو نے کہا ’’مزدور سال ہا سال سے غلاموں سے بدتر مصائب برداشت کر رہے ہیں انہیں چوبیس گھنٹے میں 18سے 20گھنٹے تک شدید محنت و مشقت کرنا پڑتی ہے‘‘۔ اس تحریک کے نتیجہ میں بالآخر ایک قانون منظور ہوا جس کے تحت سرکاری اداروں میں ملازمین نے اوقات کار دس گھنٹے روزانہ کام کا مطالبہ شروع ہوا مزدوروں میں یہ نعرہ مقبول ہوا آٹھ گھنٹے کام۔ آٹھ گھنٹے تفریح اور آٹھ گھنٹے آرام۔ 1856ء میں آسٹریلیا کے مزدور اس مطالبے کو تسلیم کرانے میں کامیاب ہوگئے 7اکتوبر 1884ء میں امریکی فیڈریشن آف لیبرکے چوتھے کنونشن میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں تمام مزدور انجمنوں سے کہا گیا کہ وہ یکم مئی 1886ء میں آٹھ گھنٹے کام کا نعرہ دے دیں اور یوں اس نئی تاریخ کو نئے اوقات کار کی داغ بیل ڈال دی گئی۔

اب آخرمیں مجھے یہ بتانا ہے کہ ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ پاکستان کے آئین میںدیئے گئے بنیادی حقوق ناپید ہیں ،انجمن سازی کے حقوق کو سلب کرنے کیلئے آرڈیننس 2002ء اور بینکنگ کمپنیز آرڈیننس دفعہ 27-Bاور صدارتی آرڈیننس 2000ء لگایا گیا، جسے منسوخ کیا جانا ضروری ہے۔

وہاں خاک عہد وفا نبھے وہاں خاک دل کا کنول کھلے

جہاں زندگی کی ضرورتوں کا بھی حسرتوں میں شمار ہے

تازہ ترین