• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کبھی سحر میں، کبھی شام میں ہے جلوہ نما ...

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: کائنات شاہ

ملبوسات: Fashion Hues.pk

آرائش: اسپاٹ لائٹ بیوٹی سیلون بائے اسماء ناز

کوآرڈی نیشن: محمّد کامران

عکّاسی: ایم کاشف

لے آؤٹ : نویدرشید

’’کم عقل عورت، تعریف کے دو بول سُنتے ہی پگھل جاتی ہے۔‘‘، ’’ایسے ہی توعورت کو ناقص العقل نہیں کہتے، ذرا کسی نے دو میٹھی باتیں کی نہیں اورتن مَن دَھن وارنے کو تیار ہوگئی۔‘‘، ’’عورت تو سدا کی بدھو ہے۔ مرد اُس کی فطری کم زوری سے فائدہ اُٹھاتا ہے، دو چار چِکنی چُپڑی باتیں کرتا ہے اور وہ جیون تیاگنے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔‘‘، ’’عورت، عقل کی پوری پوری ہی ہوتی ہے، تب ہی تو اُسے شیشے میں اُتارنا ایک مرد کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بس، تھوڑی سی جھوٹی سچّی تعریف کردی، حُسن کے دو چار قصیدے پڑھ دیئے اور ہوگئی رام۔‘‘، ’’عورت کا المیہ یہ ہے کہ وہ جھوٹی قصیدہ گوئی، غلط تعریف پر بھی خُوش رہتی، راضی ہوجاتی ہے۔‘‘ یہ اور ایسے ہزارہا جملے، ڈائیلاگز خواتین ہی کے لکھے افسانوں، ناولوں، ڈراموں، فلموں میں بارہا پڑھنے، سُننے کو ملتے ہیں۔ 

مطلب، اندازہ لگائیں کہ ایک عورت بخوبی جانتی ہے کہ اُسے کیسے بے وقوف بنایا جاتا ہے، اُس کی جبلّت و سرشت، فطری کم زوری سے کیسے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے، اِس کے باوجود وہ آمادۂ کار، مسرور و مسحور ہے۔ شاید اِس لیے کہ عمومی طورپرایک مخصوص عُمرتک بیش تر عورتیں کسی میدانِ عمل کی بجائے اپنے خواب و خیال کی دنیا (فیری/فینٹیسی لینڈ، ونڈر لینڈ، یوٹوپیا) ہی میں رہنا پسند کرتی ہیں اور اپنی اس خیالی، تصوّراتی دنیا میں تو ہر عورت ہی گویا کوئی ملکہ، رانی، دیوی، شہزادی، پَری ہوتی ہے۔ جس کے ارد گرد ہاتھ باندھے کھڑے ہر شخص کا کام صرف اُس کی مدح سرائی ٹھہرا۔ 

وہ انشاء جی نے کہا ہے ناں کہ ؎ ’’جلوہ نُمائی، بے پروائی، ہاں یہی رِیت جہاں کی ہے…کب کوئی لڑکی مَن کا دریچہ کھول کے باہر جھانکی ہے…آج مگراِک نارکودیکھا، جانے یہ نار کہاں کی ہے…مِصر کی مُورت، چِین کی گڑیا، دیوی ہندوستاں کی ہے…مُکھ پر رُوپ سے دھوپ کا عالم، بال اندھیری شب کی مثال…آنکھ نشیلی، بات رسیلی، چال بَلا کی بانکی ہے…انشاء جی اُسے روک کے پوچھیں، تم کو تو مفت ملا ہے حُسن…کس لیے پھربازارِوفا میں تم نے یہ جنس گراں کی ہے…ایک ذرا سا گوشہ دے دو، اپنے پاس جہاں سے دُور…اِس بستی میں ہم لوگوں کوحاجت ایک مکاں کی ہے…مُلکوں مُلکوں، شہروں شہروں جوگی بن کر گھوما کون…قریہ بہ قریہ، صحرا بہ صحرا خاک یہ کس نے پھانکی ہے۔‘‘ تو بس، عورت فریبِ ہستی میں خُوش، اور مرد دل بستگی سے راضی۔ ازل سے کاروبارِ حیات یوں ہی رواں دواں ہے۔

بانو آپا نے کہا تھا کہ ’’مرد کی محبّت، عورت کو کبھی مکمل سایہ نہیں دیتی، اُس کے رویّوں کی دھوپ کہیں نہ کہیں سے عورت پر پڑتی ہی رہتی ہے۔‘‘ اور یہ بھی کہا کہ ’’مرد کی فطرت ایسی ہے کہ اگر تو اُسے پوری عورت میسّر آجائے، تو اُس کا دل بَھر جاتا ہے۔ اگر تھوڑی میسّر ہو، تو پھر اُسے پانے کے لیے ہر حد پار کرجاتا ہے۔‘‘ تو بھئی، یہ آدھا، پورا سایہ، یہ تھوڑی، مکمل عورت کا حساب کتاب تو مرد و عورت کے بیچ ابد تک چلتا ہی رہےگا۔ اِسی کبھی آدھے ادھورے، کبھی پورے مکمل کھیل میں دونوں ہارتے، جیتتےرہیں گے۔ ہمارا مقصد تو نہ کسی کی فطری کم زروی سے فائدہ اُٹھانا ہے، اور نہ کسی کی دانستہ حماقتوں، نادانیوں، خوش فہمیوں کو ہوادینا ہے۔ ہم تو ہرہفتے اِک بزم سجارکھتےہیں کہ اِس میں سے موسم، موقع محل، شخصیت کی موزونیت کے اعتبار سےجو جی چاہیں، چُن لیں۔

اب ہماری آج کی محفل ہی دیکھ لیں۔ جاتی خزاں، آتی سردی سے عین ہم آہنگ سُرمئی، سیاہ، نیلے، سفید و بُھورے سے رنگوں میں کیا حسین ٹرائوزر، کُرتیاں منتخب کی ہیں کہ ہمارے خیال میں تو ڈھیلے ڈھالے کیژول سے یہ پہناوے فال ونٹری کے لیے ایک بہترین انتخاب ہیں۔ ذرا دیکھیے، گہرے سُرمئی رنگ جارجٹ فیبرک پر کٹ ورک اسٹائل نمایاں ہے، تو پرنٹڈ میچنگ سیپریٹس کےدو انداز بھی خُوب ہیں۔اِن میں سےسفید رنگ مردانہ کالر کی شارٹ شرٹ، ٹرائوزر تو نائٹ ڈریس کے طور پر بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔ 

رائل بلیو رنگ پر سلور ایمبرائڈری اچھا لُک دے رہی ہے، توملٹی شیڈڈ وولن ایمبرائڈری سے آراستہ سیاہ لباس کی انفرادیت کا بھی جواب نہیں اوربلیو ہی کے ایک اورشیڈ کی سفید کے ساتھ ہم آمیزی بھی بہت ہی بھلی معلوم ہو رہی ہے۔ اور پھر سیاہ و سُرمئی رنگوں میں دبیز سی گرم چادر تو گویا ہر اِک پہناوے کے ساتھ ہی خُوب لگّا کھائے گی۔ تو کہیے، ہمارے آج کے رنگ و انداز سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ 

اِنہیں دیکھ کر اگر کوئی کہے کہ ؎ ’’وہ دل کشی جو تِرے حُسن اور جمال میں ہے…اُسی کا عکسِ فروزاں مِرے خیال میں ہے…کبھی سحر میں، کبھی شام میں ہےجلوہ نُما…وہ روشنی جو تِرے حُسن بےمثال میں ہے…وہ نغمگی جو درخشاں ہے تیرے جلووں میں…نہ روز و شب میں فروزاں، نہ ماہ و سال میں ہے…سوادِ شام میں طاری ہے سحر اور فسوں…اُسی کا رنگ ترے حُسنِ لازوال میں ہے…شکست و ریخت سے ملتی ہے زندگی کو نمود…مِرے وجود کا عُنصر ترے کمال میں ہے…کسی جہت میں رواں ہے یہ کاروانِ حیات …بس ایک رختِ سفر ہے، جو ماہ و سال میں ہے…تِرے جمال سے راہِ وصال تک ہرایک… جو مرحلہ ہے مِری دسترس کے جال میں ہے …بہت کشش ہے تِری سحرکار آنکھوں میں… عجیب حُسنِ ادا تیرے خد وخال میں ہے…جُنوں کی راہ میں ہر سمت ہے فریبِ نظر…چلوں جنوب کی جانب، قدم شمال میں ہے…صباؔ عجیب سا جادو ہے، اُس کی آنکھوں میں…نہ سامری میں ہے، نرگس میں، نہ غزال میں ہے۔‘‘ تو، یہ عورت کی نادانی، کم عقلی کہلائے گی یا مرد کی ہوش یاری، چال بازی۔