اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔
عدالت عالیہ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے محفوظ فیصلہ سنادیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے دلائل سننے کے بعد 8 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران عدالت میں وکیل علی بخاری نے ایف آئی آر پڑھ کر سنائی۔
عدالت نے شاہ محمود قریشی کے وکیل سے سوال کیا کہ اس کیس میں آپ کے موکل کا کیا رول ہے؟ وکیل علی بخاری نے بتایا کہ آفیشل سیکرٹ انفارمیشن، سائفر کو غیر قانونی رکھنا، استعمال کرنا، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں۔ پہلے سابق وزیرِ اعظم کی درخواستِ ضمانت خارج ہوئی اور پھر میرے موکل کی، مقدمے میں سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور اسد عمر کا ذکر ہے، چالان میں نہیں، چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی درخواستِ ضمانت خارج جبکہ اسد عمر کی کنفرم کر دی گئی۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل نے کہا کہ چالان کی کاپی درخواست گزار کو احتجاج کرنے پر فراہم کی گئی، ہمیں ابھی تک صرف161 اور 164 کے بیانات کی کاپیاں فراہم کی گئی ہیں، اس مقدمے میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کا کردار مختلف ہے۔
عدالت میں وکیل علی بخاری نے شاہ محمود قریشی کی تقریر کا متن عدالت میں پڑھ کر سنایا اور کہا کہ شاہ محمود قریشی نے تقریر میں سائفر کے متن سے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ وزیرِ خارجہ کی ذمہ داری ہے کہ جو چیز آئے اسے وزیرِ اعظم کے سامنے رکھے، وزیرِ اعظم نے وزیرِ خارجہ کی فراہم کردہ معلومات کو کابینہ کے سامنے رکھنا ہوتا ہے، شاہ محمود قریشی کے خلاف کیس سزائے موت کا تو نہیں ہے، پراسیکیوشن کا پورا کیس درست مان لیا جائے تو بھی 2 سال کی سزا بنتی ہے۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔
وکیل نے بتایا کہ کابینہ اجلاس، ایجنڈا میٹنگز، سب کچھ پرنسپل سیکریٹری نے کرنا ہے، جس بندے نے سارا کچھ کرنا ہے اس کا نام نہیں، جن کا کوئی کردار نہیں ان پر مقدمہ بنایا گیا، سائفر کیس کا مقدمہ سائفر آنے کے 17 ماہ بعد درج کیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی شاہ محمود قریشی کے وکیل سید علی بخاری اور تیمور ملک کے دلائل مکمل ہوگئے۔
ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے عدالت میں کہا تھا کہ 23 اکتوبر کو قانون کے مطابق سائفر کیس میں فردِ جرم عائد کی گئی۔ 9 اکتوبر کو کاپیز کی نقول شاہ محمود قریشی کو دی گئی تھیں۔ 17 اکتوبر کو شاہ محمود قریشی نے 9 اکتوبر کے آرڈر پر دستخط کیے۔ 23 اکتوبرکو قانونی تقاضے پورے کر کے فردِ جرم عائد ہوئی تھی۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانون میں صرف کاپیز فراہم کرنے کا ذکر ہے، ملزم کے وصول کرنے کا نہیں، اگر ملزم تعاون نہ کر کے کاپیز وصول نہ کرے تو اس سے عدالت کا کوئی تعلق نہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ پٹیشنر کی حد تک چارج صرف جرم میں معاونت کا ہے؟ اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ شاہ محمود نے نہ تقریر، نہ ہی اپنے الفاظ کا انکار کیا۔
عدالت نے سوال کیا کہ شاہ محمود پر چارج معاونت کا ہی ہے؟ سائفر اپنے پاس رکھنے اور مس یوز کرنے تو نہیں؟ اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ جی بالکل شاہ محمود قریشی پر چارج معاونت کا ہی ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم 15 سے 20 دن میں سائفر کیس کا ٹرائل مکمل کرسکتے ہیں، عدالت 15 سے 20 دن یا زیادہ سے زیادہ ایک ماہ دے تو ٹرائل مکمل ہوسکتا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ یہ جیل ٹرائل ہے، ان کیمرا ٹرائل نہیں، جیل ٹرائل کس انداز میں چل رہا ہے؟ اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے بتایا کہ اٹارنی جنرل نے ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کو بتایا ہے کہ وہ تحفظات دیکھیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جیل ٹرائل کا مطلب ہے کہ اوپن پبلک کورٹ پروسیڈنگ نہیں۔ اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ جیل ٹرائل میں پبلک کی رسائی منع نہیں مگر محدود ہے۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شاہ محمود اتنے ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے کہیں بھی سائفر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ کوئی ایک جگہ بتادیں جہاں شاہ محمود قریشی نے سائفر کا لفظ استعمال کیا ہو۔
دلائل کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں شاہ محمود قریشی کی ضمانت درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا۔