چند عشرے قبل پاکستان کی معیشت اتنی مضبوط اور مستحکم تھی کہ آج کے بعض انتہائی ترقی یافتہ ممالک بھی اس سے قرضے لیتے تھے۔ شومئی قسمت کہ آج پاکستان خود ہزاروں بلین ڈالر کا مقروض اور اس حوالے سے دوست ملکوں کے علاوہ بین الاقوامی مالیتی اداروں کا دست نگر ہے۔ صنعتی اور کاروباری ادارے مشکلات کا شکار ہو کر بند ہو رہے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ مہنگائی نے غریب آدمی کا جینا محال کر دیا ہے۔ بین الاقوامی تجارتی خسارے میں نا قابل برداشت حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ ملک کی ہنر مند افرادی قوت روزگار کیلئے بیرونی ممالک کا رخ کر رہی ہے۔ گندم، چینی اور ٹیکسٹائل مصنوعات ہم برآمد کرتے تھے۔ آج درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ بین المملکتی تجارتی خسارہ ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا ہے۔ ایسے میں ضروری ہو گیا ہے کہ اقتصادی پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے۔ اس حوالے سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی یہ تجویز سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہے کہ صنعتوں میں لگائے جانیوالے پیسے کے متعلق یہ نہ پوچھا جائے کہ کہاں سے آیا۔ ان کے اپنے دور حکومت میں اسی پالیسی پر عمل ہوتا رہا جس کی وجہ سے مہنگائی قابو میں تھی، روزگار کے مواقع میسر تھے اور ملک صنعتی لحاظ سے بہتر پوزیشن میں تھا۔ بھارت اس پالیسی کو اپنا کر صنعتی لحاظ سے آگے بڑھ گیا جبکہ ہم پیچھے رہ گئے۔ ملک میں صنعتی و تجارتی اداروں کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے جبکہ یہ ادارے مستحکم ہونگے، منافع کمائیں گے تو قوم خوشحال ہوگی اور خزانے پر بوجھ بھی کم ہو گا۔ آنے والی حکومتوں کو اس پالیسی سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور دوسرے شعبوں پر بھی اسے لاگو کرنا چاہئے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ احتساب کے تقاضے نظر انداز کر دیئے جائیں۔ تمام اداروں کیلئے یکساں پالیسی ہونی چاہئے تا کہ ملک بحرانوں سے نکل سکے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998