• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

قارئین کرام! جاری موضوع کی پہلی قسط (18نومبر) کا لب لباب تھا کہ:کسی طرح دسمبر 1978ءمیں افغانستان پر سوویت (روسی) جارحیت سے 11سالہ قبضے کا انجام فلسفہ کمیونزم کی شاہکار سلطنت، ’’سوویت یونین‘‘ اور اس کی اسیر و محبوس سنٹرل ایشیائی مسلم ریاستیں اور وارسا پیکٹ کی اذیت ناک چینز میں جکڑے مشرقی یورپی ممالک، پھر بالٹک ریجن کی ریاستوں اور جارجیا کی آزادی سے ایک نئی آزاد دنیا ہفتوں اور مہینوں میں دنیا کے نقشے پر آشکار ہوئی۔

یہ بھی واضح کیاگیا کہ اس پیراڈائم کا محرک تاریخی آزاد منش افغانستان پر کمیونسٹ عسکری جارحیت سے ہونے والا گیارہ سالہ قبضہ اور بین الاقوامی ردعمل سے پہلے فوری ردعمل میں افغان عوام کا جہاد، اس کی پھر پاکستانی تائید، پھر پاکستان کا عالم اسلام اور بین الاقوامی معاونت کیلئے بیس کیمپ بن جانا بنا۔ اسی کے نتیجے میں متذکرہ آزاد دنیا کا حجم یکدم بڑھا، تبدیلی کے جھکڑ فلسطین و کشمیر تک پہنچ کر ہر دو مقبوضہ خطوں میں انتفادہ کی جاندار پرامن تحاریک آزادی شروع ہوئیں، نیپال میں بادشاہت کا خاتمہ اور جمہوریت کا آغاز ہوا۔

جاری موضوع پر ناچیز کا تھیسز یہ ہے کہ : اس عظیم تغیر برپا ہونے (پراڈائم شفٹ) پر سینکڑوں صدیوںسے جاری انسانی تہذیب کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ جنگ و جدل کا نہ ختم ہونے والا جو غیر مطلوب سلسلہ ارتقائی عمل کے ساتھ پیوست ہوگیا، اسے ختم کرکے حقیقی امنِ عالم اور بار بار تعطل کا شکار ہونے والے غیرجانبدار ترقیاتی عمل کو پیپلز اورینٹڈ ترقی جاریہ میں تبدیل کرنے کا وقت آن پہنچا تھا۔ عملی منظر یہ ہی بنتا نظر آ رہا تھا کہ حقیقی اور پائیدار انسانیت پر بیس کرتی اس عظیم تر تبدیلی کے نتیجے میں امکانی پرامن دنیا کی تشکیل کا سرخیل امریکہ ہی ہوگا اور اسے ایک پختہ شکل دینے میں روایتی امریکی پارٹنر اینگلو بلاک (یورپ) اور عالم اسلام کا بڑا اکثریتی حصہ ہی ناگزیر اور نتیجہ خیز کر دار ادا کریں گے۔ یعنی پیراڈائم شفٹ کے دوسرے مرحلے میں جانے کا عمل امریکی غلبے اور ہر دو کے اشتراک کے ساتھ شیئرڈ ہونا تھا۔ ارتقائی شکل و عمل میں چین، بھارت، جاپان، آسٹریلیا اور ایسٹ ایشیائی ریجن ،افریقہ اور جنوبی امریکہ کے براعظم اور بڑے و توانا ممالک تشکیل پذیر پیراڈائم کے دھارے میں آ جاتے۔ یقیناً اس کی بنیاد غزہ قتال کے بعد اب دم توڑتے اقوام متحدہ کے چارٹر کی مکمل اور عملی توقیر، عالمی ادارے کے فیصلوں اور قراردادوں پر عملدرآمد اور دنیا میں HAVES AND HAVE NOTS کے فرق اور خلا کو کم تر کرنے اور قدرتی ماحولیات کے تحفظ کی نتیجہ خیز عالمی کوششیں ہی بنتیں، جو اب ادھوری، کمزور اور مکمل منافقانہ ہیں۔

ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ جب دنیا کو ناگزیر انسانی ضرورتوں اور ان حسین تصورات کے مطابق عملاً ڈھالناممکن ہی نہیںتھابلکہ اس کی تشکیل کا عمل بھی پیچیدہ اور گنجلک دنیا میں شروع ہو گیاتھا، گرہیں ڈھیلی پڑ کر کھلنا شروع ہوگئی تھیں تو آخر ایسا کیا ہوا اور نوبت تباہ کن جنگ و واقعات، جیسے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد، فلسطین مسئلے کا پھر متنازع اور زیادہ پیچیدہ ہو جانا اور اس کے بعد مقبوضہ کشمیر پر ٹوٹنے والی قیامت، دونوں کا دنیا کے سب سے بڑے جیل کے بعد ہولناک و اذیت ناک قتال میں تبدیل ہو جانا، 9/11 اور اس کے نتیجے میں عراق و شام کی تباہی اور جنگ زدہ افغانستان پر پھر نیٹو کا ایک عشرے کا قبضہ۔

یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ دہشت گردی نے کیسے، کہاں اورکن وجوہات کی بنا پرجنم لیا۔ ایران کیسے دنیا سے کاٹ دیاگیا اور اسرائیل اور بھارت ، بین الاقوامی یونائیٹڈ نیشنز چارٹر کی دھجیاں اڑانے اور دنیا کے مسلمہ بنیادی انسانی حقوق کو روندنے کیلئے کیسے اور اتنے آزاد ہوئے؟ خاتمہ سرد جنگ کے فوراً بعد ہی دنیا امن عالم کا گہوارہ بننے کے تمام تر امکانات اور عملاً آغاز (پیرا ڈائم شفٹ کے ابتدائی متذکرہ نتائج)کے بعد دوسرے مرحلے میں آنے سے کیسے رک گئی یا روک دی گئی؟ اس کی جھلکیاں، ثبوت اورتنازعات و جنگ و جدل تو بڑی تعداد میں موجود لیکن گمراہی کا یہ عالم ہے کہ اس پر توجہ دینا اب نئے نئے بیانیوں سے دبانے کی عالمی سازشیں اور عمل نئے مسائل پیدا کرنے کے ساتھ زور شور سے جاری ہیں، لیکن مزاحمت کا ماحول اپنی جگہ بن کر تیار ہے، جس سے عالمی سطح کی تباہی و خسارے کے حالات اور عمل پیدا ہو چکا ہے۔ (جار ی ہے)

آئین و قانون بمقابلہ ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘

POWERFUL NARRATIVE (موثر بیانیہ) کمیونیکیشن سائنس کی سیاسی ابلاغ کو عطا کی گئی اک نئی پروڈکٹ ہے۔ یہ ’’بیانیہ‘‘ تشکیل کے سائنسی اصولوں سے شناسائی سے پہلے کاروبار سیاست اور منافع خوری والے میں بھی چلتا تو تھا، اب یہ سائنسی ہونے کے بعد نتیجہ خیز بھی بہت ہوگیا ہےاور مافیا راج نے اس کا استعمال ہتھیار کے طورپر شروع کردیا ہے۔

یہ دنیا بھر کی گندی سیاست میں بھی بڑا کام دکھا رہا ہے۔ حالانکہ اس کے مثبت استعمال سے نیشن بلڈنگ کیا، شفاف نئی تہذیب بنائی جا سکتی ہے۔ کلیدی موضوع کے علاوہ آج اس پر اس لئے توجہ دینا پڑی کہ پاکستان کے جاری گھمبیر سیاسی و معاشی، آئینی و انتظامی بحران میں موثر بیانئے کی تشکیل کا کام بڑا گند گھول رہا۔ سخت مہلک اور تشویشناک، بڑی مکاری سے اسے پاکستانی سیاست کے ایک متفقہ اور مطلوبہ بیانیے پر غالب کردیا گیا ہے۔ یہ بیانیہ ہے ’’آئین کی بالادستی‘‘ اور ’’قانون کی حکمرانی‘‘ بھی، جس کی کتاب، تعریف اور اس پر پارلیمانی و سیاسی و عوامی اتفاق کامل موجود ہے، جبکہ پاکستان کے موجودہ سخت مایوس کن اور تاد م تشویشناک ماحول میں ان جانداراور سچی کھری سیاست کے بیانیوں کی جگہ ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کابیانیہ گھڑ کر متذکرہ بیانیوں پر جو ٹھوس بنیاد اور یقینی استحکام کی صلاحیت کے حامل ہیں، اس فتنہ گری کو عام کیا جا رہا ہے۔ اگر فری کوئنسی کو ماپا جائے تو مطلوب بیانیہ سیاسی ابلاغ سے غائب ہوتا جا رہا ہے اور یہ نام نہاد لیول پلینگ فیلڈ جس کی کوئی واضح تعریف ہے نہ یہ ہمارے سیاسی تاریخی سیاسی ابلاغ میں کبھی آیا نہ آج اس کی کمزور حیثیت کے ساتھ گنجائش بنتی ہے کو بڑا مقدس اور قومی ضرورت بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ آئین و قانون کی بالادستی و حکمرانی کے جمہوریت پسند خبردار و ہوشیار رہیں۔ خصوصاً سیاست دان، تجزیہ نگار اور عدلیہ اولیگارکی (مافیا راج) کی اس کارستانی اور گمراہی کی جگہ پہلے سے آلودہ سیاسی کلچر میں نہ بسنے دیں۔ اس کی فرمائشوں سے عدلیہ میں فراہمی انصاف کو ثانوی بنانے کی تگ و دو جاری ہے اور بڑے ہاتھ مارے جا رہے ہیں۔ تشویش کہ یہ ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کی سیاست میں اتنا بدتر رنگ ماحول کیلئے خطرناک بن رہا ہے۔ وماعلینا الالبلاغ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین