آسڑیلیا نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ کیوں وہ برسہا برس سے کرکٹ کا بے تاج بادشاہ ہے اور چھٹی بار ورلڈکپ چیمپئن بنا۔ وہاں کھلاڑی نہیں ٹیم کی اہمیت ہے کوئی بھی کھلاڑی کسی بھی وقت ٹیم کو فتح دلاسکتا ہے۔ ایک سسٹم ہے جو ہر چند سال بعد چیمپئن ٹیم تیار کردیتا ہے ورنہ تو ’آن پیپر‘ بھارت کی ٹیم ہر شعبہ میں بہترین تھی اور فائنل سے پہلے کے تمام میچز جیتی تھی۔ بہر کیف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے نصیب میں نہ تھا کہ وہ ’مودی اسٹیڈیم‘ میں ایک لاکھ چالیس ہزارپُرجوش تماشائیوں کی موجودگی میں بھارت کے کپتان کو ورلڈکپ کی ٹرافی دے کر اپنی انتہاپسندانہ اور جنونی سیاست کو آگے بڑھاتے۔
مگر آخر ہم کیوں خوش تھے اور آسڑیلیا کی جیت سے زیادہ بھارت کی ہار پر جشن منارہے تھے ،یہ بھی جنون کی ایک شکل ہے اور اسکا ایک سیاسی پس منظر بھی ہے۔ عین ممکن تھا کہ اگر بھارت کی جگہ فائنل میں ہمیں شکست ہوئی ہوتی تو بھارت میں اسی طرح کا جشن ہوتا جیسا کہ 1999ءمیں ہوا تھا جب آسڑیلیا کے ہاتھوں ہمیں شکست ہوئی تھی۔ آج سے چند ماہ پہلے پاکستان میں ’ایشیا کپ‘ ہوا تھا مگر بھارت نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کردیا جس کی کوئی معقول وجہ ماسوائے تنگ نظر سیاست کے کچھ نہ تھی۔ اس کے برخلاف حکومت پاکستان نے اپنی ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت دی اور وہاں کے لوگوں نے بھی کئی جگہ ہماری ٹیم کو ویلکم کیا۔ ایسا ہی کچھ ہمارے یہاں بھی ہوتا ہے جب بھی بھارتی ٹیم یہاں آئی تو عوام نے ان کے کھلاڑیوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ دونوں طرف کے عوام کے اسی جنون کو دیکھ کر اسے سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ورنہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ کے روابط قائم ہوتے، ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی-20 سیریز ہورہی ہوتیں تو دونوں طرف کی ’سیاسی آلودگی‘ بھی کم ہوجاتی۔اب چونکہ یہ خبر کئی سال پہلے میں نے ہی ایک بین الاقوامی نیوز ایجنسی کے نمائندے کو بریک کی تھی تو آج بھی یاد ہے کہ جب سابق وزیراعظم نوازشریف نے بھارتی انتہاپسند گروپ شیوسینا کی دھمکیوں کے باوجود پاکستان کی ٹیم کو بھارت جانے کیلئے گرین سگنل دیا تو بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے تاریخی جملہ کہا ’’کرکٹ کو سیاست کی نذر نہ کریں دونوں کو الگ رکھیں‘۔ ٹیم گئی تو وہاں کے عوام نے شاندار استقبال کیا۔ عمران خان وزیراعظم بنے تو انہوں نے بھارت کے اپنے زمانے کے مایہ ناز کرکٹر،سنیل گواسکر، کپل دیو، سدھو سمیت کئی کرکٹرز کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی گواسکر اور کپل مصروفیت کی بنا پر نہ آئے پوری بھارتی ٹیم نے دستخط شدہ بیٹ بھیجا اور سدھو نے شرکت کی جس کا خمیازہ اسے بی جے پی کے ہاتھوں بھگتنا پڑا۔
ایک وقت تھا جب ’کرکٹ ڈپلومیسی‘ کے ذریعے دونوں ملک تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرتے تھے مگر پھر سیاسی معاملات نے لوگوں کے درمیان تعلقات بھی ختم کروا دیئے اور اب ہم بس ایک دوسرے کی شکست پر خوش ہوتے ہیں ۔ پاکستانی کرکٹ کے زوال کے کئی اسباب ہیں مگر ان میں سے ایک مسلسل ’سیاسی مداخلت‘ ہے۔ جس تیزی سے ہمارے یہاں وزرائے اعظم تبدیل ہوتے ہیں اسی تیزی سے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ۔ ہر وزیراعظم اپنی پسند کا چیئرمین لاتا ہے اور وہ اپنی ٹیم نیا کپتان، نیا کوچ ’نتائج‘ ہمارے سامنے ہیں ۔تصور کریں پچھلے چار یا پانچ ورلڈکپ میں ہم کبھی فائنل تک نہیں پہنچ پارہے مگر کوئی احتساب نہیں۔ یہی حال رہا تو ہماری کرکٹ کا حال بھی قومی کھیل ہاکی جیسا نہ ہوجائے ۔
ہماری کرکٹ کے زوال میں یہ عنصر بھی نمایاں رہا کہ کئی نامور کرکٹرز اور نوجوان کھلاڑی ’تنگ نظر‘ سیاست کی نذر ہوگئے۔ اگر کرکٹ کو بچانا ہے تو بے جا مداخلت ختم کرنا ہوگی، سیاست کو تو ہم جمہوری نہ کرسکے کم از کم کرکٹ بورڈ کو تو جمہوری کردیں۔ کیوں کوئی صدر یا وزیراعظم کرکٹ بورڈ کا پیٹرن انچیف ہو۔ بورڈ کو اپنا چیئرمین خود منتخب کرنے دیں، گورننگ باڈی بھی منتخب ہو۔ ’کپتان‘ سےتوقع تھی کیونکہ وہ اکثر آسڑیلین ماڈل کا ذکر کرتے تھے مگر وزیراعظم بنے تو یہاں بھی یوٹرن لے لیا ورنہ وہ خود کہتے تھے کہ صدر یا وزیراعظم کو پیٹرن نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارے یہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیںمگر ٹیم پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے ملک میں ٹیلنٹ ہےہی نہیں۔ آج تک ہم سعید انور اور عامر سہیل کے بعد اوپنرز کی جوڑی نہ تلاش کرپائے۔ ایک سال پہلے تک اسی بائولنگ اٹیک کو دنیا کا بہترین اٹیک کہا جارہا تھا مگر ہمارے ان ’نامور بولرز‘ نے ریکارڈ قائم کیا تو سب سے زیادہ رنز دینے کا۔ کسی نے 10 اوورز میں 100 رنز دیئے تو کسی نے 90۔ اسپنرز تو لگتا ہے ختم ہی ہوگئے ہیں جو ایک تھا وہ باہر بٹھا دیا گیا ،ابرار۔
جب ہماری سیاست کا لیول یہ ہوجائے کہ نوازشریف اور آصف علی زرداری کے درمیان اختلافات میں معاملہ نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کا ہو تو نہ کرکٹ بچے گی نہ سیاست۔ حکومتوں کی طرح کرکٹ میں بھی تسلسل چاہئے جو بھی چیئرمین منتخب ہو اسے مدت ملازمت پوری کرنی چاہئے۔
ایسا نہیں کہ ٹیم ورلڈ چیمپئن نہیں رہی آج بھی ہم دنیا کی بہترین ٹیموں میں سے ایک ہیں اگر کمی ہے تو ’تسلسل‘ کی۔ جب بھی ٹیم متحد نظر آتی ہے تو اچانک ایک دو خراب پرفارمنس پر تبدیل کردی جاتی ہے اور تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ اب ہم ایک اور خطرناک کھیل کھیلنے جارہے ہیں جس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے PSL کا مستقبل۔
نجم سیٹھی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نےنہ صرف اس لیگ کو پاکستان میں متعارف کرایا بلکہ بین الاقوامی کرکٹ کو پاکستان میں واپس بھی لائے۔ اب ذکا اشرف صاحب کے دور میں یہ خبریں کہ اسے اس سال ملک میں عام انتخابات کی وجہ سے اور سیکورٹی کے نام پر واپس دبئی لے جایا جارہا ہے ،باعث تشویش ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو دراصل ہم خود ہی دنیا کو پیغام دیں گے کہ پاکستان محفوظ ملک نہیں۔ رمیز راجہ جب کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے تو انہوں نے بھی بین الاقوامی ٹیموں کو پاکستان لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر بات الیکشن کی ہے تو PSL کو ایک ماہ آگے لے جائیں فروری کے بجائے مارچ میں۔ خدارا اس کو ’جلاوطن‘ نہ کریں ورنہ واپس لانا مشکل ہوگا۔