• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جناب عطاء الحق قاسمی جب بھی اسلام آباد آتے ہیں تو یہاں کے ادبی علمی حلقوں میں گرماگرمی پیدا ہوجاتی ہے گزشتہ سوموار وہ ڈاکٹر پروفیسر انعام الحق جاوید کے اعزاز میں منعقد تقریب میں خاص طور سے کوئٹہ سے یہاں پہنچے تھے۔
اسلام آباد کے پروین شاکر روڈ پر قاضی اصغر صاحب نے ’’ پاک قطر لٹریری سوسائٹی‘‘ جس کے وہ چیئرمین بھی ہیں کے پلیٹ فارم سے اسلام آباد کے چیدہ چیدہ دانشوروں کومدعو کررکھا تھا بظاہر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی شگفتہ کتاب ’’موج میلہ‘‘ پر اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے دیئے گئے انعام کی تقریب تھی مگر اصل میں اسلام آباد کی یخ بستہ اداس شاموں اور سیاسی بے یقینی کے ماحول میں امید کی کرنوں کو سمیٹنا تھا، عطاء الحق قاسمی صاحب نے جانے کیوں انعام الحق جاوید سے انکایہ قطعہ فرمائش کرکے سنا کہ
تم کہتے ہو سب کچھ ہوگا
میں کہتا ہوں کب کچھ ہوگا
بس اس آس پہ عمر گزاری
اب کچھ ہوگا اب کچھ ہوگا
اسلام آباد میں ہرکسی کی نگاہ اس لمحے کی تلاش میں ہے کہ اب کچھ ہوگا، مگر کچھ بھی نہیں ہورہا، گزشتہ ماہ پاکستان ائرفورس کے کامرہ کمپلیکس میںJF 17تھنڈر طیارے کی تقریب میں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف بطور مہمان خصوصی مدعو تھے تقریب کے خاتمے پر اخبار نویسوں سے آمنا سامنا ہو اتو میاں صاحب نے اٹک کے ایک سینئر صحافی کودیکھا توپوچھا ’’ تسی کدھر‘‘ اس نے کہا جناب ہم تو ادھر ہی ہیں آپ گزشتہ سات آٹھ ماہ سے کہاں ہیں؟ اس پر میاں صاحب نے کہا کہ واقعی میں بہت زیادہ مصروف رہا کچھ پتہ ہی نہ چلا اب جاکے معاملات پر کچھ کچھ قابو پایا ہے اب انشاء اللہ ملاقاتیں ہوں گی۔وزیر اعظم پاکستان یقینی طور سے کوئی اجتماعی قومی سطح کاکام سرانجام دے رہے ہونگے مگر لوگ حساب مانگتے ہیں گزرے سات مہینوں کا کہا جاتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف بند گلی میں پھنس چکے ہیں میرا خیال ہے کہ یہاں ہر کوئی اپنی اپنی گلی میں پھنسا ہوا ہے عام آدمی کاتو بہت ہی براحال ہے اسکی نہ کوئی گلی ہے نہ گھر حکومت خود بہت سی گلیوں میں پھنسی ہوئی ہے‘‘ پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ حکومت طالبان کے خلاف آپریشن کرکے مزید پھنس جائے بعض اندر بیٹھے لوگ بھی حکومت کو ہلا شہری دے رہے ہیں کہ فوجی آپریشن بہت ضروری ہے، حالانکہ مذاکرات سے بہتر کوئی دوسرا آپشن احتیاط کا متقاضی ہے۔
فوج میں آرمی چیف یا سپہ سالار ہمیشہ اس کو بنایا جاتا ہے جو صاحب اولاد ہو تاکہ نوجوانوں کوجنگ میں جھونکنے سے پہلے اسے اپنے بچے یاد آجائیں، سفاک آدمی کمانڈو نہیں ہوسکتا گزشتہ منگل کو گن شپ ہیلی کاپٹر اور جنگی طیاروں نے محدود پیمانے پر میر علی اور دتہ میں جو کارروائی کی تھی اس کے نتیجے میں تیرہ ہزار افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے اب جس گرینڈ آپریشن کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اس خطرے سے محفوظ رہنے کے لئے پچاس ہزار سے زائد لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر خواتین اور بچوں کو لے کر نقل مکانی کررہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ سالہا سال سے جاری یہ لاحاصل جنگ جو طرح طرح کے حربی طریقوں سے تو نہ روکی جاسکی آخر مذاکرات کا ڈول ڈالنے میں کیا حرج ہے ۔میاں نواز شریف اپوزیشن کے پر زور مطالبے پر گزشتہ بدھ کو قومی اسمبلی میں کافی عرصے بعد آئے اور طالبان سے مذاکرات کا پالیسی بیان تودیا اور اسے آخری موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے بات بہت خوش آئند ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو مذاکرات نہیں چاہتیں، حکومت کو پہلے کراچی آپریشن میں الجھا کر کیا حاصل ہوا ، اپوزیشن یہ تو نہیں دیکھتی کہ حکومت مشکل میں ہے، وہ گزشتہ دنوں کی کارکردگی کا حساب طلب کرتے ہیں اب اگر کسی گرینڈ آپریشن میں افواج پاکستان کوڈال دیا گیا تو سیاسی حکومت کی ساکھ متاثر ہوگی اور پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات میں ’’ن‘‘ لیگ کی مایوس کن کارکردگی کی بنا پر اگلا انتخاب جیت جائیگی! لہٰذا مذاکرات کی راہ نکالی جائے مولانا سمیع الحق کا تمسخر نہ اڑایا جائے اگر وہ مذاکرات کی بات کرتے ہیں تواس میں حکومت کا مفاد مضمر ہے جولوگ مذاکرات نہیں چاہتے وہ دراصل عوام کی خیر خواہی سے نابلد ہیں لوگ بے روزگاری کے چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں تووہ توانائی کا بحران ہے کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کالا باغ کے نام پر لوگ لال پیلے ہوجاتے ہیں دنیا دھیرے دھیرے قحط سالی کی طرف بڑھ رہی ہے سن1800ء میں ایک ارب انسان کرۂ ارض پربستے تھے آج2014ء میں سات ارب ہوچکے ہیں اور اعداد شمار کے مطابق اگلے پچیس برسوں میں دوارب کا اضافہ ہوجائیگا850ملین انسان دنیا میں اس وقت بھوک اور موت کی کشمکش میں ہیں دوارب انسانوں کو خوراک کی کمی کاسامنا ہے پاکستان بھی اس ماحول کا ایک حصہ ہےاگر توانائی کی کمی پر قابو اور دیگر وسائل بروئے کار نہ لائے گئے توپاکستان بہت جلد قحط سالی کے دوزخ میں اتر جائیگا۔
تازہ ترین