بٹن خالہ کی عمر أسی برس ہے خاندان میں انھیں احتراماََ بڑی اماں کہا جاتا ہے ،بٹن خالہ کا تعلق بھارت کے شہر کان پور سے تھا اور وہ ساٹھ سال قبل شادی کے بعد پاکستان منتقل ہوگئی تھیں اور کئی دہائیوں سے لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لیکن گھریلو خاتون ہیں انھوں نے پوری زندگی اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے میں صرف کی۔کبھی سیاست سے تعلق نہ رہا لیکن نجانے کیوں وہ میاں نواز شریف سے اتنی ہی محبت رکھتی ہیں جتنی اپنے بچوں سے ، وہ نواز شریف کیخلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرسکتیں ، ہر نماز میں نواز شریف کی حفاظت اور کامیابی کیلئےخصوصی دعا کرتی ہیں ، ایسے وقت میں جب خواتین اور بچوں میں عمران خان کیلئے نرم گوشہ بہت زیادہ بڑھ چکا تھا اس وقت بھی وہ نواز شریف کیخلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتی تھیں ۔میرا جب بھی لاہور جانا ہوتا ہے بٹن خالہ سے ضرور ملاقات ہوتی ہے اور ہمیشہ ہی نواز شریف اور عمران خان زیر بحث آتے ہیں۔ اس دفعہ بٹن خالہ سے ملاقات ہوئی تو میں نےپوچھ ہی لیا کہ خالہ آپ کو سیاست میں میاں نواز شریف اتنا کیوں پسند ہے، بٹن خالہ میاں نواز شریف کا نام سن کر مسکرائیں اور ایک بار پھر انھیں کامیابی کی دعا دیتے ہوئے گویا ہوئیں ، بیٹا دیکھو ہمیں تو سیاست کو کچھ پتہ نہیں لیکن ہم اتنا ضرور سمجھتے ہیں کہ جس لیڈر کو قوم کی رہنمائی کرنی ہو اس کا اخلاق اور کردار بہترین ہونا چاہیے اور ہم انسان کو اس کے اخلاق اور کردار سے پہچان لیتے ہیں ہم نے خود میاں نواز شریف کااخلاق اور کردار دیکھا ہے لہٰذا ہمیں نواز شریف بہت پسند ہے ،ہم خود اس کے اخلاق کےگواہ بھی ہیں ،میں نے پھر سوال کیا کہ آپ کو کیسے تجربہ ہوا میاں نواز شریف کے اخلاق و کردار کا ؟ انہوں نے گہرا سانس لیا اور بولیں بیٹا یہ دوہزار سترہ کی بات ہے میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا گیا تھا اوروہ ہر ہفتے میں کئی کئی دفعہ پیشیاں بھگتنے کیلئے لاہور سے اسلام آباد کا سفر کیا کرتے تھے انہی دنوں میں ہمیں بھی کراچی جانا تھا اور ہم ائیر پورٹ پر انتظار گاہ میں بیٹھے تھے کہ اچانک میاں نواز شریف اپنے لوگوں کے ساتھا ائیرپورٹ میں داخل ہوئے اور میرے سامنے سے گزرتے ہوئے اپنی فلائٹ کی جانب روانہ ہوئے، اسی اثنا میں ہماری نظر ان پڑی اور ہم نے دعائیہ انداز میں انہیں سلام کیا اور شاید میاں نواز شریف نے بھی ہمیں دیکھ لیا تھا لیکن وہ آگے بڑھ چکے تھے لیکن چند قدم آگے جانے کے بعد اچانک وہ رک گئے،واپس آئے اور ہمارے پاس آکر ہاتھ اٹھاکر سلام کیا اور مسکراکر ہمارا حال پوچھا کہ اماں جی آپ کیسی ہیں ہم نے بھی جواب میں انھیں خوب دعائیں دیں اس موقع پر میاں نواز شریف نے اخلاقاََپوچھا اماں جی آ پ اکیلی ہیں اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیں؟ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا ہمارے بچے بھی آ پ کے برابر ہیں جس پر نوازشریف نے کہا کہ اماں جی میں بھی آپ کے بچوں کی طرح ہوں کوئی بھی خدمت ہو تو بلا تکلف بتائیں ہم نے ان کا شکریہ اد ا کیا جس پر نواز شریف نے کہا کہ اماں جی آپ سے دعائوں کی درخواست ہے یہ کہہ کر وہ اپنی فلائٹ میں چلےگئے۔ اس کے بعد سے ہم ہمیشہ ہر نماز میں نواز شریف کیلئے دعا کرتے ہیں ، بٹن خالہ کی بات ختم ہوچکی تھی لیکن میں سمجھ چکا تھا کہ میاں نواز شریف نے بٹن خالہ کو اپنے بہترین اخلاق اور کردار سے اپنا گرویدہ بنالیا ہے ،میں نے ازراہ تفنن عرض کیا کہ بٹن خالہ اخلاق تو عمران خا ن کا بھی اچھا ہے تو وہ غصے سے بولیں خاک اچھا ہے اس نے پوری قوم کو بدتمیز بنادیا ہے ،برطانیہ میں پاکستانیوں کی حرکتیں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ برطانیہ جیسے ملک میں رہ کر بھی اس کی پارٹی کے لوگوں نے نواز شریف کے گھر کے باہر طوفان بدتمیزی مچایا، لگتا ہی نہیں کہ برطانیہ جیسے ملک میں،جہاں لوگ تعلیم اور ادب سیکھتے ہیں وہاں بھی ایسی غیر اخلاقی زبان استعمال کی جاسکتی ہے ، دوسرا جب لیڈر وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھ کر جلسوں میں غیر اخلاقی زبان استعمال کرے گا تو پوری قوم پر اس کا اثر پڑے گا ،ہمیں اچھے اخلاق اور اچھے کردار کے لوگوں کو ہی اپنا لیڈر بنانا چاہیے کیونکہ اپنے اخلاق اور کردار سے دنیا کو یہ بھی بتانا ہے کہ پاکستانی قوم ایک اچھے اخلاق اور کردار والی قوم ہے۔ ہمارے مذہب کی جھلک ہمارے اخلاق اور کردار میں ظاہر ہونی چاہیے اور یہی میرا پوری قوم کے نام پیغام بھی ہے۔