اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ریفرنسز میں سزاؤں کے خلاف نواز شریف کی اپیلوں کی سماعت 29 نومبر تک ملتوی کردی گئی ہے، مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالتِ عالیہ میں ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کی۔
نواز شریف کے وکیل نے 4 گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔
وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2017ء میں سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔
عدالت نے سوال کیا کہ یہ جو فیکٹ آپ نے دیے کیا یہ ریفرنس دائر ہونے سے پہلے کے ہیں؟
وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ 3 حقائق ریفرنس سے پہلے کے، باقی بعد کے ہیں، میں اس معاملے پر 3 سے 4 منٹ میں بات مکمل کر لوں گا، نیب کو فیصلے کے 6 ہفتوں کے اندر ریفرنسز دائر کرنے کی ہدایت کی گئی، ریفرنسز پر 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کی بھی ڈائریکشن دی گئی، نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ ریفرنس بنا، فیصلے کی روشنی میں نواز شریف، حسن اور حسین نواز پر العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس بنا، نیب نے کہا کہ سپریم کورٹ آرڈرز کی روشنی میں ریفرنس بنا کر دائر کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا، اس وقت کے چیئرمین نیب نے یکم اگست2017ء کو ڈی جی نیب کو تفتیش کرنے کا کہا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ تو ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کر چکی تھی پھر نیب نے تفتیش کا کیوں کہا؟
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نیب نے ضابطے کی کارروائی کو پورا کرنے کے لیے ایسا کیا، نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 10 سال اور العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا سنائی گئی، فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف احتساب عدالت سے بری ہوئے تھے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ کیا نیب نے بریت کے خلاف اپیل دائر کی تھی؟
نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ نیب نے بریت کے خلاف اپیل دائر کی تھی، اس پر ابھی تک نوٹس نہیں ہوا، ریفرنس دائر ہونے کے بعد اور فردِ جرم سے پہلے نواز شریف نے سپریم کورٹ میں نظرِ ثانی درخواست دائر کی، سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو کہا کہ ہماری کسی بھی آبزرویشن سے اثر انداز ہوئے بغیر فیصلہ دے، نواز شریف پر ایون فیلڈ ریفرنس میں اکتوبر2017ء میں فردِ جرم عائد کی گئی، جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 10 کی دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، والیم 10 میں باہمی قانونی معاونت کے لیے مختلف ممالک کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت سے متعلق دستاویزات تھیں۔
جسٹس گل حسن نے کہا کہ آپ نے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی بھی ایک درخواست دائر کی تھی، جج صاحب نے ایک ریفرنس کو جلدی چلا کر فیصلہ سنایا اور 2 پر کارروائی کو روک دیا تھا۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ فیصلے کے بعد دیگر ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست دی تھی، درخواست عدالت میں زیرِ سماعت ہونے کے دوران ہی جج محمد بشیر نے کیس سننے سے معذرت کر لی تھی، نیب نے ایک ابتدائی تفتیشی رپورٹ جمع کرائی اور بعد میں ضمنی تفتیشی رپورٹ دی، ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا، نیب نے ٹی وی انٹرویوز پیش کیے، نواز شریف کی اسمبلی فلور پر کی گئی تقریر کا حوالہ دیا، ایک گواہ رابرٹ ریڈلے کو پیش کیا جو نواز شریف کی حد تک کیس میں متعلقہ گواہ نہیں، نیب نے گواہوں کے بیانات کے علاوہ کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ نیب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مریم نواز بینفشل اونر ہیں۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نیب نے یہ کوشش ضرور کی مگر اس الزام کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا، نواز شریف کو مالک اور مریم نواز سمیت دیگر بچوں کو بے نامی دار ثابت کرنے کا بوجھ پراسیکیوشن پر تھا، ہمارا مؤقف یہی رہا کہ چارج بھی غلط فریم ہوا ہے، ایون فیلڈ ریفرنس میں جب نیب نے ضمنی ریفرنس دائر کیا، 18 میں سے 6 گواہوں کے بیانات ہو چکے تھے۔
جسٹس گل حسن نے سوال کیا کہ کیا کسی گواہ نے ایسا کوئی بیان دیا جس کے بعد نیب نے ضمنی ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا؟
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ پہلی گواہ سدرہ منصور نے ایس ای سی پی کا ریکارڈ پیش کیا، ہمارا کیس اوپن ہوا اور گواہ پر جرح ہوئی تو اسی وقت نیب نے ضمنی ریفرنس لانے کا فیصلہ کیا۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے وکیل امجد پرویز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس متعلق وقت لے کر جواب دیں۔
واضح رہے کہ نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلیں بحال ہونے کے بعد آج دوسری سماعت ہے۔
عدالت نے فریقین سے ایون فیلڈ ریفرنس میں اپیل پر دلائل طلب کر رکھے ہیں۔
گزشتہ سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کے لیے 4 سے 6 گھنٹے کا وقت دینے کی استدعا کی تھی۔
نیب نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اپیل پر دلائل کے لیے صرف آدھے گھنٹے کا وقت دینے کی استدعا کی تھی۔