آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا ہے کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی سیکیورٹی کی رپورٹ کی روشنی میں چیئرمین تحریک انصاف اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کا ٹرائل جیل میں ہو گا۔
سائفر کیس میں چیئرمین تحریک انصاف اور شاہ محمود قریشی کو عدالت میں پیش کرنے یا نہ کرنے سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فیصلے میں کہا کہ سائفر کیس کی سماعت سننے کے خواہشمند کو روکا نہیں جائے گا اور صحافیوں کو بھی سائفر کیس کی سماعت سننے کی اجازت ہوگی۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ فیملی کے پانچ پانچ افراد کو سماعت پر آنے کی اجازت ہوگی۔
بعدازاں سائفر کیس کی آئندہ سماعت جمعہ یکم دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔
اس سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو عدالت میں پیش نہ کرنے پر جیل حکام کی رپورٹ پر فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا تھا کہ اس معاملے پر آرڈر پاس کروں گا۔
اس سے قبل سنجیدہ سیکیورٹی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے جیل حکام نے چیئرمین پی ٹی آئی کو سائفر کیس میں عدالت میں پیش کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سائفر کیس میں جیل حکام نے چیئرمین پی ٹی آئی کی عدالت پیشی سے متعلق رپورٹ پیش کی تھی۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی رپورٹ کا جائزہ لیا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی عدالت میں سائفر کیس کی سماعت کے موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء اور ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹرز عدالت میں پیش ہوئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی بہنیں اور شاہ محمود قریشی کی بیٹی بھی عدالت پہنچیں۔
سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے اسلام آباد پولیس کی رپورٹ بھی جیل رپورٹ کے ساتھ منسلک کی ہے جبکہ ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے سپرٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کا خط عدالت میں پڑھا۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ جیل حکام کا کہنا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کو پیش نہیں کر سکتے۔
سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خط کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کو سیکیورٹی وجوہات کے باعث عدالت میں پیش نہیں کر سکتے، اسلام آباد پولیس کو اضافی سیکیورٹی کے لیے خط لکھا ہے۔
خط کے مطابق بتایا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سنجیدہ نوعیت کے سیکیورٹی خدشات ہیں۔
عدالت میں وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پراسیکیوشن کا کیس دیکھنا ہے کب گرتا ہے، شکوہ کروں گا آپ سے بھی کہ اتنا جلدی ٹرائل نہ چلائیں، ہمیں ایک ہی بات کی جاتی تھی کہ اسٹے ہے تو دکھا دیں، پراسیکیوشن کا کہنا تھا کہ ٹرائل تو ہو گا، ہم کہتے تھے ٹرائل ابھی نہ چلائیں، کون سا کیس ہے آج تک جو اتنا جلدی چلا؟ معلوم نہیں کیوں اس کیس کو اتنی جلدی چلایا جا رہا تھا؟ کیس کو جلدی چلایا جا رہا تھا پھر بھی ہم سر جھکا کر چلتے رہے، سائفر کیس کا کوئی انوکھا ٹرائل تو نہیں تھا، اسلام آباد میں دہشت گرد گھسے، نہ کوئی ایسا دہشت گردانہ واقعہ پیش آیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو آج ہی عدالت میں پیش تو کرنا پڑے گا، کن انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹ پر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے چیئرمین پی ٹی آئی کو پیش نہیں کیا؟
انہوں نے کہا کہ 50 سے 60 مقدموں میں چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ عدالت میں پیش ہو چکا ہوں، ہم جب کہتے تھے کہ مقدمات اتنے ہیں تب نہیں سنی جاتی تھی، کون سی تخریب کاری ہوئی ہے جو چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت نہیں لائے؟ مجھےصبح ہی آثار نظر آ گئے تھے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو نہیں لانا، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ اور آپ کے فیصلے کی خلاف وزری کی ہے، اب کیا سپریم کورٹ جائیں اگر ہائی کورٹ اور سیشن کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانا جا رہا؟ آپ کے ایک حکم پر ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش کیا جائے، آپ بھی حیران ہیں، ہم بھی حیران ہیں اور پراسیکیوشن بھی حیران ہے۔
عدالت میں وکیل سلمان صفدر نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کا خط پڑھنے کے لیے مانگا۔
بعد ازاں جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ پہلا پیج دیکھ لیں دیگر کانفیڈینشل صفحات ہیں۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ کیا جیل سپرنٹنڈنٹ فیصلہ کرے گا کہ سیکیورٹی خدشات ہیں یا نہیں، جیل سپرنٹنڈنٹ تو اپنی نا اہلی ثابت کر رہا ہے، اڈیالہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو تو استعفیٰ دے دینا چاہیے، اڈیالہ جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کا ٹرائل چل رہا تھا، سیکیورٹی خدشات چیئرمین پی ٹی آئی کی حد تک ہیں، شاہ محمود کو کیوں پیش نہیں کیا گیا؟
عدالت میں سرکاری وکیل نے کہا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے خط کے دیگر صفحات نہ پڑھے جائیں، کانفیڈینشل نوعیت کے ہیں۔
بعدازاں شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ شاہ محمود قریشی اڈیالہ جیل میں سلاخوں کے پیچھے موجود ہیں، اس وقت تو کوئی نقول فراہم نہیں کی گئی یا فردِ جرم عائد نہیں ہوئی، شاہ محمود قریشی سے متعلق تو کوئی سیکیورٹی خدشہ نہیں، انہیں کیوں پیش نہیں کیا گیا؟ شاہ محمود اور چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش کروانا عدالت کی ذمے داری ہے۔
دوسری جانب ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر شاہ خاور نے جوڈیشل کمپلیکس میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو پیش کیا جانا ضروری ہے، یہ پہلے مرحلے سے کیس شروع ہونا ہے۔
شاہ خاور نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عدالت پیشی ضروری ہے، جیل ٹرائل کا تعلق سیکیورٹی کی وجہ سے تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد پہلی سماعت ہے، یہ جج پر منحصر ہے کہ سماعت ویڈیو لنک پر ہو سکتی ہے، جج مناسب فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیسے کیس چلایا جائے۔
شاہ خاور نے کہا کہ ضابطہ فوجداری میں ملزم کو پیش کیا جانا ضروری ہے، اگر پیش نہیں کیا جاتا تو 540 کے تحت وکیل درخواست دے سکتا ہے، فردِ جرم عائد کرنے اور کیس آگے بڑھانے کے لیے ملزم کو پیش کیا جانا ضروری ہے۔