• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کھاد میں کمی کیوں آئی؟ فوڈ منسٹری سے ایک ہفتے میں جواب طلب

 
—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے فوڈ منسٹری سے ایک ہفتے میں جواب طلب کیا ہے کہ بتایا جائے کہ کھاد میں کمی کیوں آئی ہے؟

سینیٹ میں مظفر حسین شاہ کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی کا اجلاس ہوا۔

چیئرمین کمیٹی مظفر حسین شاہ نے سوال کیا کہ مارکیٹ میں کھاد نہیں ہے، فوڈ منسٹری بتائے کیوں نہیں ہے؟

اُنہوں نے کہا کہ میں خود کاشت کار ہوں، مجھے کھاد نہیں مل رہی تو شکایت کنندہ کو کیسے ملے گی، ساڑھے 3 ہزار والی کھاد کی بوری اب 5360 روپے میں بھی نہیں مل رہی۔

نمائندہ فوڈ منسٹری نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ پنجاب میں کھاد ہے، ہم نے کھاد بنانے والی کمپنیوں کو بلا تعطل گیس دی۔

مظفرحسین شاہ نے کہا کہ میں سندھ کی بات کر رہا ہوں اور آپ مجھے پنجاب کا بتا رہے ہیں۔

نگراں وزیرِ داخلہ نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ بلوچستان میں بھی کھاد نہیں ہے، میں نے اپنے طور پر پنجاب سے منگوائی۔

جس کے بعد چیئرمین کمیٹی نے فوڈ منسٹری کے نمائندے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ گرمیوں کی بات نہ کریں، اکتوبر اور نومبر میں قلت کیوں تھی اس کی وجہ بتائیں، کل میرپورخاص، حیدرآباد میں 600 بیگ چاہیے تھے اور ایک بوری کھاد نہیں ملی۔

نگراں وفاقی وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے بھی فوڈ منسٹری کے نمائندے سے  سوال کیا کہ جب اسمگلنگ رک گئی ہے تو کھاد کہاں گئی ہے؟ کاشت کار کو تو فائدہ پہنچ ہی نہیں رہا، میں وزیرِ داخلہ ہوں اور میں اپنی کاشت کاری نہیں کر سکتا۔

اُنہوں نے درخواست کی کہ چیئرمین کمیٹی کل پھر اجلاس بلائیں، وزارت داخلہ کی طرف سے میں خود آ جاؤں گا، جب ہمارے کاشت کار کے پاس کھاد نہیں ہو گی تو لوگ کہاں جائیں گے۔ 

نگراں وفاقی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ کاشت کار جب کاشت کاری نہیں کر سکے گا تو کیا کرے گا، کیا کھائے گا، پھر ایسے حالات میں کاشت کار خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ 99 فیصد اسمگلنگ ختم ہو چکی اور میں یہ بات دعوے سے کر سکتا ہوں، اسمگلنگ روکنے کا فائدہ کاشت کار کو ہونا چاہیے جو نہیں ہو رہا۔

سینیٹر ثانیہ نشتر نے اس معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کھاد کمپنی سے نکلتی ہے کھیتوں تک نہیں آتی، گندم کی پیداوار کا ہم اندازہ لگاتے ہیں مگر کھاد کی مقدار تو ہمیں اچھی طرح معلوم ہوتی ہے تو پھر کھاد کہاں گئی؟

جس کے بعد مظفرحسین شاہ نے کہا کہ ایک ہفتے میں فوڈ منسٹری بتائے کہ کھاد کہاں گئی اوراس کی کمی کیوں آئی؟

اُنہوں نے کہا کہ منسٹری یہ بھی بتائے کہ مارکیٹ میں کھاد کی بوری کی قیمت میں 2 ہزار روپےکا اضافہ کیوں ہوا؟ اور ایک ہفتے میں ہمیں اس مسئلے کا حل دیا جائے۔

نگراں وزیرِداخلہ سرفراز بگٹی نے اجلاس کے دوران یہ سوال بھی اُٹھایا کہ 2017ء سے 2022ء تک ایک ہی کمپنی زیتون کے پودوں کی سرکاری محکموں کے لیے درآمد کرتی رہی، اس کاروبار میں کسی اور کو نہیں آنے دیا جا رہا۔

جس پر فوڈ سیکیورٹی کے حکّام نے جواب دیا کہ ملک میں حکومتی سطح پر 16 لاکھ زیتون کے پودے درآمد کیے گئے، اب زیتون کے پودوں کی درآمد ختم ہو گئی ہے کیونکہ ملک میں مستند زیتون نرسریاں قائم ہو چکی ہیں اور ایک ہی کمپنی نے درآمد اس لیے کیا کیونکہ وہ تمام درکار معیار پر پوری اترتی تھی۔

جواب سننے کے بعد سرفراز بگٹی نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک ذیلی کمیٹی قائم کی جائے۔

جس پر کمیٹی نے 5 سال زیتون کے پودوں کی درآمد کا ٹینڈرصرف ایک پارٹی کو دینے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

چیئرمین کمیٹی قائمہ کمیٹی فوڈ سیکیورٹی مظفرحسین شاہ نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے سینیٹر کامران مرتضیٰ کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی قائم کی گئی ہے۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ذیلی کمیٹی ایک ماہ میں معاملہ کا جائزہ لے کر اپنی تجاویز پیش کرے گی۔

قومی خبریں سے مزید