• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی معیشت کو سب سے زیادہ نقصان تجارتی عدم توازان اور اندرونی سطح پر ٹیکسوں کے کمزور نظام کی وجہ سے ہوا ہے۔ حقیقی ٹیکس پالیسی کا مقصد ریاست کے نظم و نسق، ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز اکٹھے کرنا اور نجی شعبے سے وسائل لے کر عوامی شعبہ جات پر خرچ کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کی ٹیکس پالیسی دنیا کی فعال ٹیکس پالیسی کے برخلاف ہے۔ وہاں ٹیکس سے عوام کو تعلیم اور صحت سمیت دیگر بنیادی سہولتیں دی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں عام آدمی پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے جبکہ اشرافیہ مراعات سے مستفید ہوتی ہے ۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا دس فیصد غریب ترین طبقہ دس فیصد امیر ترین طبقے سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔ جاگیردار اپنی آمدنیوں پر ٹیکس نہیں دے رہے۔ صنعتکاروں نے خود کو من پسند پالیسیوں کے پیچھے چھپا رکھا ہے۔ قصہ مختصر اس بوسیدہ ٹیکس انفراسٹرکچر کی وجہ سے ملک کو ہر سال ایک تہائی ٹیکس وصولیوں کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک ریسرچ ادارے کی یہ رپورٹ بھی چشم کشا ہے کہ ملک میں صرف رئیل اسٹیٹ ، چائے، ادویات، ٹائرز اور لبریکنٹس کے شعبوں میں سالانہ 9 کھرب 56 ارب کا ٹیکس چوری ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکس نظام میں پائے جانے والے ان نقائص کی وجہ سے بھی عالمی مالیاتی ادارے ان میں تبدیلیوں کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی آئی ایم ایف کی تکنیکی ٹیم کے ایف بی آر کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں جس میں امیر طبقہ کے انکم ٹیکس کی چھان بین کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ صنعت کاروں، وکلا اور طاقتور ایسوسی ایشنز ممبران کے شناختی کارڈ کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ شوگر انڈسٹری میں بھی فیلڈ فارمیشنز کی ٹیمیں تعینات کی گئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کا حقیقی پوٹینشل 20 ٹریلین روپے تک ہے۔ ملک کی معاشی ابتری پر قابو پانے کیلئے امیر طبقے کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ درست حکمت عملی اور اصلاحات کے عزم کے ساتھ پاکستان اپنے معاشی چیلنجوں پر قابو پا سکتا ہے۔

تازہ ترین