• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اورامریکہ کے تعلقات میںبہت سےایسے موڑآئےہیںجس میںطرفین یہ کہتےہوئےسنائی دیتےہیںکہ’’تم روٹھے ہم چھوٹے‘‘ لیکن ایسا ہونہیں پاتا اورکسی نہ کسی عنوان سے طرفین دوبارہ سے اعتماد کی بحالی کے لئے کوششیں شروع کردیتے ہیں۔ وزیر اعظم کے سیکورٹی ایڈوائزر جناب سرتاج عزیز اور وزیر دفاع خواجہ آصف کے دورہ واشنگٹن کے بعد پھر کچھ ایسا تاثر پیدا ہوا ہے کہ طرفین کے درمیان اعتماد کی نئی فضا جنم لے رہی ہے۔ مشرق وسطی اور افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاک امریکہ تعلقات میں بہتری ناگزیر ہے۔
واشنگٹن کے سفارتی اور دانشور حلقوں میں پاکستان کے بارے میں انتہائی منفی رویہ موجود ہے۔ حال ہی میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی پروفیسرکرسٹینا فئیرنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان امریکہ کا اتحادی نہیں بلکہ ایک دشمن ملک ہے۔ ان کے خیال میں امریکہ کے دشمن پاکستان کے دوست ہیں جبکہ بھارت اور امریکہ کے دشمن مشترک ہیں لہٰذا بھارت ایک دوست ملک ہے۔ اسی طرح امریکہ کے سابق وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اپنے 2010کے دورے کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’دورہ بے نتیجہ ثابت ہوا۔ دورے کے بعد مجھ پر یہ عیاں تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا جیسا کہ سپلائی لائن (کا کھلارکھنا) جوکہ (پاکستان کے لئے) انتہائی منافع بخش ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان طالبان اور دوسرے دہشت گردوںکو پناہ گاہیں مہیا کرتا رہے گا تاکہ افغانستان میں جس کا بھی پلہ بھاری ہوپاکستان کا اثر و رسوخ قائم رہے...مجھے یہ یقین تھا کہ وہ (پاکستان) ہرگز امریکہ کا اتحادی نہیں ہے‘‘
اسی طرح کا ایک انٹرویو امریکہ کے نائب وزیر خارجہ آرمٹییج نے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے نائب وزیر خارجہ ہونے کے دوران جو 2001سے2005 تک کا تھا، یہ اطلاعات موصول ہوتی رہیں کہ پاکستان طالبان کی امداد کررہا تھا2005 میں جب اموات (فوجی) بڑھنے لگیں تو ایک طرف تو طالبان نے اپنے سب ہتھیار آزمانا شروع کئے اور دوسری طرف پاکستان کا خیال تھا کہ ہم بے دم ہو کر بھاگ جائیں گے‘‘ انہوں نے اس یقین کا بھی۔ اظہار کیا کہ معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے، پاکستان جنوبی اور مشرقی افغانستان میں طالبان کی مدد کرے گا اور شمال میں ہندوستان اور روس کے تاجک علاقوں میں اثر و رسوخ پر نظر رکھے گا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ صدر اوباما کو کیا مشورہ دیں گے تو انہوں کہا کہ میں کہوں گا ’’جناب صدر پچیس سال بعد بھی افغانستان ایک ملک کے طور پر ایسا ہی رہے گا اور اس کا نسلی امتزاج بھی برقرار رہے گا۔ لیکن شاید میں پاکستان کے بارے میں یہ نہیںکہہ سکتا۔ افغانستان میں جنگ کے بارے میں یہ کہوں گا کہ یہاں کسی کے لیے جان دینے کی ضرورت نہیں اورشاید چھوٹی سی فورس دہشت گردی کو روکنے کے لئے وہاں چھوڑ دینا چاہئے‘‘
پاکستان میں بھی امریکہ مخالف جذبات بہت گہرے ہیں۔ امریکہ کو ایک ناقابل اعتماد اتحادی سمجھا جاتا ہے جس نے کبھی بھی ضرورت پڑنے پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ پاکستان نے افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا لیکن جیسے ہی روسی فوجیں افغانستان سے نکلیں امریکہ نے نہ صرف پاکستان کو جنگ کے ملبے کے نیچے تنہا چھوڑ دیا بلکہ اس پر پریسلر قرارداد کے حوالے سے معاشی پابندیاں عائد کردیں۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ امریکہ پھر سے ایسا ہی کرے گا اور پاکستان کو افغانستان کے بحران سے تنہا نپٹنا پڑے گا۔ پاکستان کو افغانستان میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں بھی سخت تحفظات ہیں۔ قطع نظر طرفین کے شکوے شکایتوں کے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات قائم رہیں گے بلکہ ان میں بہتری کے امکانات کافی روشن ہیں۔واشنگٹن میں جناب سرتاج عزیز صاحب نے واضح الفاظ میںکہا کہ پاکستان کابل میںصرف طالبان کی حکومت کے حق میں نہیں ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی یہ خواہش ہےکہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان سیکورٹی معاہدہ طے پا جائے جس کے تحت امریکی فوج کا ایک حصہ افغانستان میں موجود رہے۔ انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اگرطالبان بلا شرکت غیرافغانستان پر حکمرانی قائم کرلیتے ہیں تو پاکستانی طالبان مضبوط ہوں گے اور پاکستانی ریاست کے لئے خطرات بڑھ جائیں گے۔پاکستان اور امریکہ کے درمیان اصل تنازع افغان طالبان کے بارے میں ہے،اگر ان کے بارے میں پاکستان کی پالیسی تبدیل ہوتی ہے تو پاک امریکہ تعلقات میں بہت بہتری آسکتی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہےکہ اگر پاکستان طالبان کے خلاف ملٹری آپریشن کرتا ہے توکیا اس کا نشانہ تمام طالبان ہوں گے یا صرف تحریک طالبان پاکستان کےجنگجو۔ اس سوال کا جواب اگلے چند مہینوں میں سامنے آجائے گا۔
عالمی حالات کے تناظر میں بھی دیکھاجائےتو امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کے امکانات زیادہ ہیں ۔ اس وقت شام اور مصر میں القاعدہ نیٹ ورک سے مرتب کی گئی تنظیم اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا(آئی ایس آئی ایس) شام اورعراق کے کافی بڑے علاقوں پرقابض ہو چکی ہے۔ وہ اس علاقے میںایک اسلامی امارت بنانے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین گوریلا جنگ کی تیاریوں میں ہے۔ یمن اور صومالیہ میںبھی القاعدہ کا ابھار ہے۔ ان حالات میں امریکہ یہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کااحیاء ہو یا یہ علاقہ انتہا پسند مذہبی طاقتوں کے قبضے میں چلا جائے۔ اس لئے امریکہ کسی نہ کسی طرح اس علاقے میں اپنی موجودگی قائم رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اگرچہ کچھ امریکی ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی یہ خواہش کہ امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی قائم رکھے اس لئے ہے کہ پاکستان امریکہ سے ڈالر نچوڑتا رہے۔
پاکستان پر بھی ایک بات واضح ہونا چاہیے کہ اگر پاکستان نے تعاون نہ کیا تو امریکہ اس خطے کو ویسے ہی خیر باد کہہ سکتا ہے جیسا کہ اس نے عراق میں کیا (اگرچہ اس کے امکانات کم ہیں)۔امریکہ خطے میں رہے یا نہ رہے، پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ ملک سے طالبان اور دوسرے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو خدانخواستہ ایسا ہی ہو سکتا ہے جس کی طرف آرمیٹیج نے اشارہ کیا ہے، یعنی دہشت گردی پاکستانی ریاست کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتی ہے (بلکہ ڈال رہی ہے)۔
پاکستان اپنے خطے اور دنیا میں سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ صرف واشنگٹن میں اس کے بارے میں منفی تاثر نہیں ہے بلکہ بھارت افغانستان اور ایران بھی اس کے بارے میں مثبت خیالات نہیں رکھتے۔ یہ صورتحال تب تک تبدیل نہیں ہوگی جب تک پاکستان اپنے ملک سے ہر طرح کی انتہا پسندی، دہشت گردی اور جہادیت کا خاتمہ نہ کردے۔ اگر پاکستان اس بارے میں سنجیدگی دکھاتا ہے تو اس کے نہ صرف امریکہ سے تعلقات مضبوط ہوں گے بلکہ اس کی عالمی تنہائی بھی ختم ہوجائے گی۔
تازہ ترین