بین الاقوامی تنازعات میں کشمیر کا مقدمہ سب سے سیدھاہے، اس کی تاریخ جھٹلائی نہیں جا سکتی... قانون کی زبان میں کہتے ہیں’’ بندہ جھوٹ بول سکتا ہے ، ریکارڈ کے طور پر پڑے ہوئے کاغذات نہیں‘‘ ۔
یہ مقدمہ پاکستان نہیں بلکہ بھارت خود بطورِ ریاست اقوامِ متحدہ میں لے کرگیا۔ مقدمے کا پہلا اور آخری نکتہ اب انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر کا ابتدایہ سمجھا جاتا ہے۔ آج ساری بین الاقوامی برادری دُنیا کے کسی نہ کسی خطے میں آزادی کیلئے لڑنے والوں کی عملی، عسکری ، سفارتی یا اخلاقی مدد کر رہی ہے۔ اسی مدد کا نتیجہ ہے کہ وہ سوڈان جو صدیوں سے افریقہ کا دل سمجھا جاتا تھا اور 1400سال سے شاہِ نجاشی جیسے عادل بادشاہ کی سرزمین کے طور پرکروڑوں لوگوں کی سجدہ گاہِ نیاز تھی اُس میں مٹھی بھرعیسائی آبادی نےطا قتورعیسائی ریاستوں کی مداخلت سے خود مختار ملک بنالیے۔ یہی نہیں بلکہ دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا کے ایک جزیرے میں ایشیاء کا پہلا عیسا ئی ملک ’’ ایسٹ تیمور‘‘ بھی خود مختاری لینے میں کامیاب ہوگیا۔ان دونوںخطوں میں نہ کوئی آزادی کی تحریک چلی۔ نہ تو لاکھوں شہیدوں کے نئے قبرستان بنے اور نہ ہی سرزمینِ وطن کی کسی بیٹی کی آبرو کا آنچل تار تار ہوا۔اس کے باوجود حقِ خودارادیت کے نام پر عالمی طور پر تسلیم شدہ ریاستوں کا پیٹ چاک کرکے دو نئے مُلک بنا دیئے گئے۔
یہ بھی رسوا کن سچائی ہے کہ ایشیاء کی مسلم تاریخ کے جاہ پرست آمروں نے اپنی خاندانی سیاست اور شخصی آمریت کو بچانے کیلئے سیاہ تاریخ کے باب لکھے۔ ایسی ہی ایک خون آشام کتاب بنگلہ دیش میں مرتب ہو رہی ہے۔ جس پر عالمی طاقتوں، اسلامی ملکوں، اقوامِ متحدہ سمیت انسانی حقوق کے نوحہ گروں کی خاموشی ہمیشہ سے سوالیہ نشان ہے۔ یہاں میں ایک سیاسی مغالطے کو بھی دور کر تا ہوں وہ یہ کہ کشمیر کے مقدمے کے فریق بھارت اور پاکستان نہیں بلکہ اس کے چار فریق ہیں۔ پاک و ہند دو فریق ہیں اس کا تیسرے فریق وہ کشمیری ہیں جن کو اپنے مستقبل کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق دلوانے کے لئے بھارت کی ریاست نے اقوامِ متحدہ سے رجوع کیا تھا۔ چوتھا فریق اقوامِ متحدہ ہے جس کی قرارداد کے زور پر شمالی سوڈان، ایسٹ تیمور میں امن کے نام پر فوجیں اتاری گئیں۔ جس کی تحریری اجازت سےعراق پربمباری ہوئی، لیبیا پرآگ کی بارش اور افغانستان پر بارودی ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ یہ ادارہ اپنے بین الریاستی چارٹر کے تحت پابند ہےکہ وہ کشمیر کے حریت پسند عوام کو مزید کسی بھی مجرمانہ تاخیر کے بغیر آزادی کے ساتھ اپنی رائے اور مرضی سے پاکستان میں شامل ہونے کا حق دلوائے۔
اگر ہم کشمیر کے مقدمے کا آئینی طور پر غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں تو اس کے اہم نکات یوںہیں:
نمبر1۔ 16 مارچ 1846 سے ِ جموں و کشمیر لداخ سمیت ایک خود مختار ریاست تھی۔ ریاست پر برِ صغیر کی تقسیم کے اصول پائمال کرتے ہوئے ہندوستان نے اُس وقت فوجی چڑھائی کی جب 24 اکتوبر 1947 کے دن کشمیری عوام نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تب مہاراجہ ہری سنگھ کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر سے فرار ہوا۔
نمبر 2۔ یہ بھی ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ برِ صغیر کی تقسیم کے پلان کے قانون Indian Independence Act 1947 کے مطابق برِ صغیر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 14 اور 15 اگست 1947کی درمیانی رات تقسیم ہوچکا تھا۔
نمبر 3۔بھارت نے جونا گڑھ اور حیدرآباد کی مسلم ریاستوں کے مہاراجوں کی طرف سے پاکستان کے ساتھ الحاق کو اس بنیاد پر تسلیم کرنے سے انکارکیا کہ انہوں نے اپنی ریاستوں کے عوام سے الحاق کے بارے میں نہیں پوچھا۔ جبکہ ریاستِ لداخ، جموں، کشمیر کو بھارت کے ساتھ زبردستی شامل کرنے کے لئے بھارتی افواج نے کون سا ریفرنڈم یا استصوابِ رائے کروایا تھا...؟
نمبر 4۔ پی این بزاز نے اپنی کتاب The History of Struggle for Freedom in Kashmirکے صفحہ نمبر 341 اور آگے تحریر کیا ہے کہ’’ انڈیا کو مائونٹ بیٹن پلان کے تحت مذہبی بنیادوں پر جون 1947 میں تقسیم کیا گیا۔ اس پلان نے کشمیر کا مستقبل واضح کردیا کہ یہ پاکستان کے ساتھ ہی وابستہ ہو گا‘‘۔
نمبر 5۔ یکم جنوری 1948 کے دن انڈیا گورنمنٹ نے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے صدر کو ٹیلی گرام بھجوایا جس کی بنیاد پر قرارداد نمبر 38 مورخہ 17 جنوری 1948 پاس ہوئی۔ جس میں پاک و ہند حکومتوں کو مسئلہ کشمیر پر اقدامات کرنے کے لئے کہا گیا۔
نمبر6۔یواین سیکورٹی کونسل نے 20جنوری1948 کے دن قرارداد نمبر 39 منظور کی اور مسئلہ کے حل کے لئے تین رکنی کمیشن تشکیل دیا۔
نمبر7۔ 21 اپریل 1948 کو قرارداد نمبر 47 منظور ہوئی جہاں پاکستان اور ہندوستان نے جمہوری طریقے سے کشمیر کے مستقبل کو آزاد اور غیر جانبدارانہ استصوابِ رائے (Plebiscite) کے ذریعے طے کرنے پر اتفاقِ رائے کرلیا۔
نمبر8۔ اسی تسلسل میں 3 جون 1948 کے روز یو این سیکورٹی کونسل نے قرارداد نمبر 51 منظور کی جس کے ذریعے پچھلی تینوں قراردادوں کو مسئلہ کشمیر کے حل کی بنیاد پر طے کرکے اقوامِ متحدہ کے Commission of Mediation کو متنازعہ علاقے کا دورہ کرنے اور کشمیر کے مقدمے پر رپورٹ پیش کرنے کا حکم جاری ہوا۔
نمبر 9۔ ان اقدامات کے تحت یو این کمیشن برائے انڈو پاکستان" "UNCIP نے 13 اگست1948 کو پہلی قرارداد نمبرS/1100، پیرا نمبر 75 کے تحت پاس کی اور فوجی آبزرور تعینات کئے۔
نمبر10۔UNCIP نے دوسری قرارداد5 جنوری 1949 نمبرS/1196، پیرا نمبر 15 پاس کی۔ چنانچہ 29 جولائی 1949 کے دن پاک بھارت عسکری نمائندوں نے سیز فائر لائن ایگریمنٹ پر دستخط کردیئے۔
نمبر 11۔ 22 دسمبر 1949 کو سیکورٹی کونسل کے صدر جنرل اے جی ایل، میک ناٹن نے کشمیر کے مقدمے کا آخری حل سیکورٹی کونسل کو پیش کیا جسے پاکستان نے قبول کیا اور بھارت بین الاقوامی برادری سے بھاگ نکلا۔
نمبر12۔ 14 مارچ 1950 کے روز قرارداد نمبر 80 پاس ہوئی اور کشمیریوں کا حقِ خود ارادیت منظور کرنے پر زور دیا، بھارت نے پھر بین الاقوامی بے ایمانی کی۔ایک اور قرارداد نمبر 91، 30 مارچ 1951 کو پاس ہوئی جبکہ 23 دسمبر 1952 کو پھر قرارداد منظور ہوئی۔
نمبر 13۔ 24جنوری 1957 کے دن سیکورٹی کونسل نے پچھلی تمام قراردادوں کو زندہ کرتے ہوئے ایک اور قرارداد منظور کی۔
نمبر 14۔ 1965 میں پانچ مسلسل قراردادیں پھر منظور ہوئیں۔4 ستمبر1965 قرارداد نمبر 209، 6ستمبر قرارداد نمبر 210، 20 ستمبر قرارداد نمبر 211، 27 ستمبر، قرارداد نمبر214 اور 5 نومبر کے روز قرارداد نمبر 215 پاس ہوئی۔
یہ ساری قراردادیں بھارت کے ماتھے کا بین الاقوامی سیاہ داغ بن چکی ہیں۔کشمیر کا مقدمہ پاکستانی اور کشمیری حکمرانوں کا منتظر ہے کہ کب وہ اسے عالمی عدالت میں پیش کرتے ہیں...؟ کشمیری اورپاکستانی عوام اس عدالت کے باہرکھڑے میرے ہم آواز ہیں:
میرے کشمیر ، اے وادیِ محتشم
تجھ پہ جب سے پڑے غاصبوں کے قدم
تیری تاریخ، قصہ جورو ستم