اسلام آ باد ( تجزیہ رانا غلام قادر ) الیکٹورل کالج مکمل نہیں تھا ، PTI انٹرا پارٹی الیکشن کا تمام پراسیس مشکوک ہو گیا،حیران کن، دلچسپ الیکشن میں نہ کا غذات نامزدگی چھپوائے گئے ، نہ ووٹرز لسٹ اور نہ امیدواروں کو لڑنے کا موقع ملا، پی ٹی آئی کے ایک وکیل رہنما نے نما ئندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے والوں کو شر مندگی اٹھانا پڑے گی ، آئین کی پاسداری نہیں کی گئی،پی ٹی آئی کی جانب سے ہفتہ کے روز عجلت میں کرائے گئے انٹر ا پارٹی الیکشن نے اس کی آئینی اور جمہوری حیثیت کے بارے میں سوالات کھڑے کردیے ۔
حیران کن اور دلچسپ انداز میں منعقد کرائے گئے ،پارٹی الیکشن میں نہ صرف بیرسٹر گوہر علی خان کو بلامقابلہ چیئر مین منتخب ہوئے بلکہ دیگر تمام عہد یدار بھی بلا مقا بلہ منتخب قرار دیدیے گئے.
نتائج کا اعلان چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی نے کیا۔ علی امین گنڈا پور کو کے پی کا صدر اور عمر ایوب کو مرکزی سیکر ٹری جنرل منتخب قرار دیاگیا جو اس وقت زیر زمین ہیں اور پارٹی الیکشن لڑنے کیلئے دستیاب ہی نہیں جبکہ الیکشن لڑنے کے خواہش مندوں کو موقع ہی فرا ہم نہیں کیا گیا۔ پارٹی کے آئین کے تحت منتخب نیشنل کونسل نے انتخاب کرنا تھا مگر اس کا کوئی با ضابطہ اجلاس ہی منعقد نہیں ہوا۔
محض رسمی کارروائی کی گئی کیونکہ نیشنل کونسل کا انتخاب ہی طویل عرصہ سے نہیں ہوا اور نہ ہی اس کی کوئی فہرست جاری کی گئی ۔ کا غذات نا مزدگی نہ ویب سائٹ پر دستیاب تھے نہ ہی پارٹی سیکر ٹریٹ میں دستیاب تھے۔ مروجہ طریقہ کار کے تحت امیدوار کا غذ ات نامز دگی جمع کراتے ہیں ۔
الیکشن کمشنر انہیں مسترد یا منظو ر کرتا ہے۔ اعتراضات وصول کئے جاتے ہیں جس کے بعد حتمی فہرست جاری کی جا تی ہے۔ اس کے بعد امیدوار وں میں مقابلہ ہوتا ہے یا کوئی امیدوار مقابلہ سے دستبر دار ہوتا ہے ۔ لیکن یہ الیکشن ایسے آ نا ً فاناً ماحول میں ہوئے کہ تمام مراحل کو بلڈوز کر دیاگیا۔ کھلی مسابقت کے مواقع فراہم نہیں کئے گئے۔
پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس ابرکاغذات نامزدگی لینے اور ووٹرز لسٹ کیلئے پارٹی سیکر ٹیریٹ گئے تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے پاس نہ کاغزات نامزدگی ہیں اور نہ دیگر معلو مات ہیں۔ٹیکسلا کے بانی رکن رانا بلال ‘ میا نوالی کے سعید اللہ نیازی اور صوابی کے یوسف علی بھی الیکشن لڑنے کے خو اہش مند تھے۔
چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی نے انتہائی قلیل وقت میں رسمی کاروائی پوری کئے بغیر بلا مقابلہ امیدواروں کےانتخاب کا اعلان کر دیا۔ نہ بیلٹ پیپرز چھپوائے گئے ۔ نہ کا غزات نامزدگی ۔ نہ ووٹرز لسٹ تیار کی گئی ۔ نہ پر یزائیڈنگ افسر کا تقرر کیا گیا۔ نہ پولنگ ایجنٹ بنا نےکا موقع دیاگیا۔
اکبر ایس با بر نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ قبول ہے قبول ہے نکاح میں تو سنا تھا آج الیکشن میں بھی سن لیا۔ انہوں نے ان الیکشن کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہےاور اسے سلیکشن قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہانٹرا پارٹی الیکشن جس انداز میں کرائے گئے وہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے منافی ہے۔ہم نے جب پینل بنایا تو انٹرا پارٹی الیکشن میں سلیکشن کر لی گئی
شاہد رندہم 1996 سے پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں، شاہد رندآج رہنما پارٹی چھوڑنے کی پریس کانفرنسز کر رہے ہیں، بانی رکن پی ٹی آئی شاہد رند پی ٹی آئی دور حکومت میں اقتدار کے مزے لینے والے آج دوسری پارٹیوں میں شامل ہورہے ہیں، شاہد رندہم اس دور میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
شاہد رندپی ٹی آئی چیئرمین کی "الیکٹ ایبلز" کی سیاست پاکستان اور عوام نے دیکھ لی۔پارٹی کے بانی اراکین کی جانب سے اگر ان الیکشن کو اعلان کے مطابق چیلنج کیا گیا تو پی ٹی آئی کیلئے با دی النظر میں ان الیکشن کا آئینی جواز ثابت کرنا بہت مشکل ہو گا اور پارٹی کسی نئے امتحان سے دو چار ہوسکتی ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک وکیل رہنما نے نما ئندہ جنگ سے گفتگو میں کہا ہے کہ اگرچہ بیرسٹر گوہر علی خان سمیت پارٹی عہدوں کے بلا مقابلہ الیکشن پر پارٹی قیادت خو ش ہے اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ انہوں نے انٹرا پارٹی الیکشن میں پارٹی آئین اور الیکشن قواعد کی پیروی کی ہے جس میں بلا مقابلہ انتخاب کی شق موجود ہے مگر انہیں اس وقت شرمندگی اٹھانا پڑے گی جب یہ معاملہ قانون کی عدالت میں جا ئے گا جہاں ان کیلئے یہ ثابت کرنا مشکل ہو جا ئے گا کہ انہوں نے الیکٹو رل کالج پو را کیوں نہیں کیا۔