مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
بلاشبہ، دنیاکے چپّے چپّے پر اللہ تعالیٰ کی لاتعداد نشانیاں موجود ہیں، بس دیکھنے والی آنکھ، سمجھنے والی عقل اورعمل کرنے والا دل ہونا چاہیے۔ اللہ ہم سب کو ایمانِ کامل عطا فرمائے، آمین۔ میرے 4بچّے ہیں۔ دوبیٹے اور دوبیٹیاں۔ نہ صرف میرے چاروں بچّے بلکہ نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں سب ہی طب کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اللہ کا شُکر ہے کہ میری اولاد فرماں بردار، دین دار بااخلاق اور اللہ کے حکم پرچلنے والی ہے۔
جب کہ میرا بڑا بیٹا تو میرا دایاں بازو ہے، گو کہ مَیں کم زور، ناتواں ہوں، مگر میرے ارادے پہاڑوں جیسے مضبوط ہیں۔ مَیں نے حالات سے کبھی ہار نہیں مانی، نہ ہی کسی کے آگے اپنی کسی بھی پریشانی کا رونا رویا۔ میری بڑی بیٹی نے جامعہ حمادیہ، شاہ فیصل کالونی نمبر3سے عالمہ کاکورس کرنے کے بعد سوات سے بہترین پوزیشن میں فاضل کیا۔ 2009ءکا ذکر ہے، میری بیٹی کو جامعہ حمادیہ سے کچھ اہم کاغذات منگوانے تھے۔
شاہ فیصل کالونی میں واقع اس جامعہ تک جانے کے لیے شاہ راہِ فیصل سے اندر کی جانب ایک ریلوے لائن عبور کرنا پڑتی ہے، تو جب مَیں جامعہ سے بیٹی کے ضروری کاغذات لے کرکالونی گیٹ اسٹاپ تک جانے کے لیے، ریلوے پھاٹک سے پٹری عبور کرنے ہی والی تھی کہ ایک ٹرین تیزی سے آتی نظر آئی، مَیں وہیں رُک گئی۔
چند لمحوں میں ٹرین گزرگئی، تو مَیں نے دیکھا کہ ایک ضعیف مرد اورعورت ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے انتہائی اطمینان وسکون کے ساتھ عین پٹری کے بیچوں بیچ گزر رہے ہیں، چوں کہ میں اُن کے قریب ہی کھڑی تھی، تو میری نگاہ جیسے ہی اُن دونوں پر پڑی، مَیں ٹھٹھک کر رہ گئی۔ اُن دونوں کے چہرے بالکل پتھر جیسے تھے۔ عورت کے بال کمر سے نیچے اور اتنے گھنیرے تھے کہ دیکھ کر کسی دوشیزہ کا گماں ہورہا تھا۔ عورت نے دوپٹا اوڑھ رکھا تھا، اُس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ بڑی ہول ناک سی تھی۔ اُسے دیکھنے کے بعد نہ جانے کیوں میرا پورا وجود کانپنے لگا۔
مگر مَیں خود کو تسلّی دے رہی تھی کہ یہ دونوں بھی تو بہت دھیمی چال سے پٹری پار کررہے ہیں، مَیں بھی کرلوں گی۔ چوں کہ ایک ٹرین گزرچکی تھی اور میرے خیال میں فوری طور پر دوسری ٹرین گزرنے کا کوئی امکان نہیں تھا، لہٰذا مَیں بھی آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھاتے ہوئے پٹری عبور کرنے لگی۔ مگر..... ابھی دو، تین قدم ہی بڑھائے تھے کہ ایک قیامت کا منظر سامنے تھا۔ دائیں طرف سے ایک اور ٹرین بجلی کی سی تیزی سے آرہی تھی، میرا اور ٹرین کا فاصلہ تقریباً 20فٹ ہوگا، آناً فاناً ایک ٹرین کو اپنے اس قدر قریب دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔ دل و دماغ نے گویا کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اُس لمحے یک دَم میری زباں سے کلمہ طیبہ کا ورد جاری ہوگیا۔
میرے تھرتھراتے لبوں سے مسلسل کلمے کا ورد جاری تھا۔ میرے دونوں پیر جیسے مَن مَن بھر کے ہوگئے تھے۔ یوں محسوس ہورہا تھا، جیسے زمین میں گڑ گئے ہوں، میرا ایک پیر، جو ریل کی پٹری پر تھا، مجھے نہیں معلوم کہ کس طرح میں نے اُسے اٹھا کر یک دم زمین پررکھا اورعین اُسی لمحے تیزی سے ٹرین میرے پیچھے سے گزرگئی۔ ٹرین کے گزرتے ہی لوگوں کی بھیڑ لگ گئی، سب حیران تھے کہ چند سیکنڈ کے وقفے سے دوسری ٹرین کیسے آگئی۔
میں نیم بے ہوشی کے عالم میں ایک کرسی پر بیٹھی خالی خالی آنکھوں سے ہجوم کو دیکھ رہی تھی۔ جب حواس کچھ بحال ہوئے تو وہی ضعیف مرد اورعورت دیوار سے ٹیک لگائے، پتھرکے بُت کی مانند کھڑے نظر آئے۔ میری نظراُن پر پڑی، تو وہ مجھے ہی گھور رہے تھے، بالکل پیلے چہروں، ساکت، بے نور آنکھوں کے ساتھ۔ اُنھیں دیکھ کرموت کے فرشتوں کا گمان ہورہا تھا۔ حیرت انگیز طورپر کوئی اُن کی طرف متوجّہ نہیں تھا، شاید وہ صرف مجھے ہی دکھائے دے رہے تھے۔
بہرحال، آج بھی وہ منظر یاد آتا ہے، تو دل لرزاٹھتا ہے، شاید وہ موت کے فرشتے تھے، کیوں کہ اگرمَیں بھی اُن دونوں کی طرح آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی پٹری سے گزرتی، تو یقیناً میری موت واقع ہوچکی ہوتی۔ اللہ کی حکمتیں، اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن میرا ایمان ہے کہ یقیناً اللہ کے کلام نے مجھے سلامت رکھا کہ مَیں اور میرے تمام بچّے گھر سے نکلنے سے قبل لازماً آیت الکرسی اور درودِ ابراہیمیؑ پڑھ کرنکلتے ہیں۔ اور پھر میری زبان پر کلمہ طیبہ کا ورد بھی جاری تھا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین۔ (شبینہ گل انصاری، نارتھ کراچی، کراچی)
سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!
اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اُٹھایئے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں،صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔
ایڈیٹر،’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔