• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

23نومبر1964ء کی ایک سرد رات کو، میرے والد، جنہیں مَیں بابا کہتی تھی، مجھے نیند سے جگا کر بتایا کہ ’’تمہارا بھائی پیدا ہوا ہے۔ آئو چل کر دیکھو، تمہاری امّی کے پاس ہے۔‘‘ رات کے اس پہر نیند کے خمار میں  ہونے کے باوجود مَیں دوڑتی ہوئی امّی کے پاس پہنچی، تو انھوں نے مسکرا کر مجھے دیکھا۔ کچھ دیر قبل دنیا میں آنے والا میرا ننّھا منّا بھائی چادر میں لپٹا، اُن کے برابر آنکھیں بند کیے پُرسکون سو رہا تھا۔ اتنے میں بابا نے کہا کہ ’’بیٹی! مَیں فجر کی نماز پڑھنے مسجد جارہا ہوں، دروازہ بند کرلو۔‘‘ مَیں جلدی سے دروازہ بند کرکے آئی اور بھائی کو گود میں اٹھانے کے لیے فوراً اُس کے پاس پہنچی، تو امّی نے میری بے چینی بھانپ کر کہا، ’’نہیں نہیں، ایسے نہیں اٹھاؤ، مَیں تھوڑی دیر بعد خُود اُسے تمہاری گود میں دے دوں گی۔‘‘

اُن دنوں ہم وحدت کالونی، لاہور کے سرکاری کوارٹر میں رہتے تھے۔ رات تین بجے کالونی کی ڈسپینسری کی لیڈی ڈاکٹر گھر پر بچّے کی پیدائش کے فرائض انجام دے کرگئی تھیں۔ ہمارے برابر والے کوارٹر میں میری ہم عُمر سہیلی، فرحت عرف گڈو رہتی تھی۔ اُس وقت میری عُمر سات سال ہوگی اور گڈو گیارہ برس کی تھی۔ بھائی کی ولادت کی خبر صبح جب محلّے میں پہنچی، تو ہمارے گھر، آس پڑوس کی خواتین کی آمدورفت شروع ہوگئی۔ 

بابا کچھ دیر بعد آفس چلے گئے۔ بابا کے آفس جانے کے بعد مَیں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کمرے میں جاکر دیکھتی کہ امّی سوگئی ہیں یا جاگ رہی ہیں۔ دراصل گڈو اور مَیں نے یہ پروگرام بنایا تھا کہ بھائی کو چھت کی سیر کروائیں گے، اس طرح شاید اُسے مزہ آئے گا۔ ہماری کالونی میں چار چار کوارٹرز کی چھتیں آپس میں ملی ہوئی تھیں۔ چھت پرجانے کے لیے کوئی سیڑھی یا راستہ نہیں تھا، جس کی وجہ سے کوئی چھت پر نہیں جاتا تھا، البتہ ہم بچّے صحن کی مشترکہ دیوار پر کرسی کے ذریعے غسل خانے کے باہر لگے سیوریج کے پائپ کی مدد سے چھت کی منڈیر تک پہنچ جاتے تھے اور وہاں سے چھلانگ لگا کر چھت پر پہنچ جاتے اور پھر چھت پر پہنچ کے خُوب دوڑ بھاگ کرتے۔

روشن دانوں سے گھروں میں جھانکنے کی کوشش کرتے، اونچائی سے محلّے کا نظارہ کرتے۔ میرے اور گڈو کے علاوہ بھی دیگر کوارٹرز کے بچّے اسی طرح کی حرکتیں کیا کرتے، سارا دن کھیل کود کر تھک جاتے، تو چھت سے اُتر آتے۔ اُس دن دوپہر کو مَیں نے گڈو کو اُس کے گھر جاکر بتایا کہ’’ امّی باتھ روم گئی ہیں، جلدی سے آجاؤ، منّے کو چھت کی سیر کرواتے ہیں۔‘‘ گڈو بھی تیار بیٹھی تھی، فوراً ہی اپنی کرسی پر چڑھ کر دیوار پر آگئی اور مَیں کمرے میں گھس کر بھائی کو اٹھا لائی۔ 

بڑی مشکلوں سے کرسی پر چڑھی اور بھائی کو دیوار پر موجود گڈو کے حوالے کردیا۔ پھر دیوار پر چڑھ کر پائپ کے ذریعے منڈیر تک پہنچی اور چھت کے فرش پر کود گئی۔ پھر کھڑے ہوکر منڈیر کے اوپر سے جھک کرگڈو سے کہا کہ ’’بھائی کو مجھے پکڑادو۔‘‘ گڈو نے دونوں ہاتھوں سے بھائی کو تھاما ہوا تھا، مَیں نے جب اُسے پکڑوانے کے لیے کہا، تو اُس نے اُسی طرح اٹھا کر اپنے سر سے اونچا کردیا، لیکن میرے ہاتھ بھائی تک نہیں پہنچ پارہے تھے، مَیں منڈیر سے کچھ اور نیچے جھکی اور گڈو کچھ اور اونچا ہونے کی کوشش کرنے لگی، ابھی یہ کش مکش جاری ہی تھی کہ عین اُسی وقت گڈو کی امّی باروچی خانے جانے کے لیے کمرے سے باہر آئیں اور ہم پر نظر پڑی، تو کہنے لگیں ’’نیں! تسی کی پئی کردیاں جے‘‘(تم لوگ کیا کررہی ہو)۔ 

مَیں نے چہک کر جواب دیا، ’’خالہ! ہم بھائی کو چھت کی سیر کروانے جارہے ہیں۔‘‘ یہ سنتے ہی گڈو کی امّی کا رنگ فق ہوگیا۔ یہ دیکھ کرکہ بچّہ اُن کی بیٹی کے پاس ہے اور وہ دیوار پر کھڑی مجھے چھت پر پکڑوانے کی کوشش کررہی ہے۔ انہوں نے فوراً قریب رکھی کرسی گھسیٹی اور اُس پر چڑھ کر بڑے پُرسکون انداز میں گڈو سے کہا، ’’کاکا مینوں پَھڑا‘‘ (بچّہ مجھے پکڑاؤ)۔ گڈو نے جیسے ہی بچّہ اُن کے حوالے کیا، وہ اسے سینے سے چمٹا کرتیزی سے صحن کے دروازے سے نکل کر سیدھی ہمارے کمرے میں چلی گئیں۔

ہم دونوں بھی حیران پریشان دیوار سے نیچے اُتر آئیں۔ گڈو اپنے گھر اور میں اپنے گھرچلی گئی۔ مجھے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوگیا تھا، اس لیے ڈرتے ڈرتے کمرے کے اندر پہنچی، تو خالہ اُس وقت کمرے سے نکل رہی تھیں، مجھے دیکھ کر انھوں نے کچھ نہ کہا اور اپنے گھر کی طرف چلی گئیں۔ امّی کے پاس پہنچی، تو حیرت انگیز طور پر انھوں نے بھی کچھ نہ کہا۔ ممکن ہے، وہ سمجھی ہوں کہ گڈو کی امّی بچّے کو میری گود سے لے کر کمرے میں آئی ہیں۔

شاید خالہ نے امّی کو ہماری واردات کے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا تھا، لیکن آج بھی جب وہ واقعہ یاد آتا ہے، تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور جھری جھری سی آجاتی ہے۔ آج وہ بچّہ، عبدالجبار سرکاری ملازمت سے وابستہ اور ریٹائرمنٹ کے قریب ہے۔ اس واقعے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ معاملہ کتنا ہی خطرناک ہو، اپنے حواس کو قابو میں رکھنے چاہئیں۔ 

اگر اُس وقت گڈو کی امّی ہمیں اس طرح دیکھ کر حواس باختہ ہوجاتیں اور وہیں سے چیخنا، چلّانا اور ڈانٹنا شروع کردیتیں، تو عین ممکن تھا کہ گھبراہٹ اور جلدی میں نیچے اُترنے کی کوشش میں ہم بچّے سمیت گرجاتیں، مگر انہوں نے دانش مندی سے اپنے حواس پر قابو رکھا اور صورتِ حال کو سنبھال کر ایک خوف ناک حادثے سے بچالیا، حالاں کہ بظاہر وہ سخت مزاج خاتون تھیں۔ (ڈاکٹر زیب مظہر، چک لالہ، اسکیم3،راول پنڈی)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اُٹھایئے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں،صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر،’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔