• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: حیات فاطمہ

ملبوسات: Fashion Hues.pk 

آرایش: اسپاٹ لائٹ بیوٹی سیلون

بائے: اسماء ناز

عکّاسی: ایم۔ کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

اکثر سُنتے ہیں کہ فلاں کو وقت و حالات نے ایسا کردیا۔ فلاں کو فکر و آلام نے ویسا کردیا۔ تو بات یہ ہے کہ اگر ایک جیسا کھولتا ہوا پانی آلوئوں کو نرم کرتا ہے اور انڈوں کو سخت، تو اِس کا مطلب ہے کہ قصور ’’صورتِ حال‘‘ ارد گرد کے ماحول، وقت و حالات کا نہیں، اصل معاملہ خُود ہماری اپنی ساخت و پرداخت، تعلیم و تربیت کا ہے۔ کون بظاہر اور اندر خانے بہت ٹھوس، مضبوط ہے اور کون مٹّی کے گھروندے سا بےثبات، ناپائیدار، ایک ہی لہر کے ساتھ بہتا چلاجانے والا۔ کس نے اپنے وجود کے ارد گرد مکڑی کا جالا سا بُن رکھا ہے، تو کس کے گردا گرد اخروٹ کے چھلکے سا سخت خول ہے، یہ توجس تَن لاگے، وہ تَن ہی جانے۔ 

عموماً خواتین کو صنفِ نازک، کم زور، فاترالعقل، بہت جلد باز، جذباتی اور زُودرنج سمجھا، مانا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُن کی اصل شخصیت، طاقت و رنگت کا اندازہ اُس وقت تک نہیں ہوسکتا، جب تک کسی ٹی بیگ کی طرح اُبلتے، جوش کھاتے پانی میں ڈال کر پرکھ نہیں لیا جاتا۔ یوں ہی توسابق امریکی صدر کی فرسٹ لیڈی، اینا ایلینور روزویلیٹ کا یہ قول اس قدر مقبولِ عام نہیں ہوا کہ ’’عورت ایک ٹی بیگ کی طرح ہے، آپ اُسے گرم پانی میں ڈالے بغیر اُس کےاسٹرانگ ہونےکا اندازہ لگا ہی نہیں سکتے۔‘‘ آج یہ طاقت، کم زوری، مضبوطی، ناتوانی کی ساری باتیں اس واسطے ہو رہی ہیں کہ یہ جو ’’ماہِ دسمبر‘‘ ہے ناں، یہ بڑے بڑوں کو توڑ پھوڑکے، زخمی، گھائل کرکےرکھ دیتا ہے۔ 

اِک بےنام سی فسردگی و اُداسی، اِک بےوجہ سا حزن وملال، اِک بےسبب سی یاسیّت و مایوسی، بےارادہ و بےاختیار ہی ساری ہستی بلکہ کائناتِ ہست و بُود کا احاطہ، محاصرہ کیے رکھتی ہے۔ یوں ہی تو شعراء نے ’’دسمبر‘‘ پر غزلوں کی غزلیں بلکہ پورے پورے دیوان نہیں لکھ مارے۔ وہ شہزاد قیس نے کہا ہے ناں کہ ؎ ’’ہر سِتم ایک دَم دسمبر میں…جَم سے جاتے ہیں غم دسمبر میں…سال بھر اِس لیے مَیں رویا ہوں …دل بَھرے کم سے کم دسمبر میں…ہر شجر پر خزاں نے گاڑ دیا…ایک اُجڑا عَلم دسمبر میں…برف کی کِرچیاں ہیں پلکوں پر…آہ! یہ چشمِ نم دسمبر میں…لمبی راتوں کا فیض ہے شاید…ضم ہوئے، غم میں غم، دسمبر میں… ریڑھ کی ہڈی تک اُتر آئے…سرد مہری، الم دسمبرمیں۔‘‘ اور ندیم گُلانی کی تو ’’دسمبر‘‘ ہی کے عنوان سے ایک نظم ہے ؎ ’’ابھی پھر سے پھوٹے گی یادوں کی کونپل…ابھی رگ سے جاں ہے نکلنے کا موسم…ابھی خُوشبو تیری، مِرے من میں ہم دَم…صبح شام تازہ توانا رہے گی…ابھی سرد جھونکوں کی لہریں چلی ہیں…کہ یہ ہے کئی غم پنپنے کا موسم… سِسکنے، سُلگنے، تڑپنےکاموسم…دسمبر دسمبر دسمبر دسمبر۔‘‘ اور وہ ایک بہت معروف سی غزل، جو ہر دوسرا شخص ہی شیئر کر رہا ہوتا ہے کہ ؎ ’’کبھی جو ٹوٹ کے برسا دسمبر… لگا اپنا، بہت اپنا دسمبر…گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو…نہیں کٹتا، مگر تنہا دسمبر…وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن…بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر…یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے…میری آنکھوں میں آٹھہرا دسمبر…ملن کے چند سکّے ڈال اِس میں…میرے ہاتھوں میں ہے کاسہ دسمبر…جمع پونجی ہے یہی عُمر بھر کی…میری تنہائی اور میرا دسمبر۔‘‘

ٹھیک ہے، دسمبر اور درد کا چولی، دامن کا ساتھ ہے۔ (اِک خلقت کہتی ہے، تو بجا ہی فرماتی ہوگی) لیکن اب یہ بھی لازم نہیں کہ یہ درد، انگ انگ سے عیاں بھی ہو۔ ماحول نے لاکھ سادھوئی، بیراگی رنگ اوڑھ رکھا ہو، لڑکیوں بالیوں کے بہت اُجلے گہرے، شوخ و شنگ رنگ پہننے، خُوب سجنے سنورنے کا بھی تو یہی موسم ہے۔ بلڈ ریڈ، باٹل گرین، بنفشی، نارنجی، آتشی، قرمزی، جامنی، تیز زرد اور جیٹ بلیک رنگ اِس موسم میں نہیں پہنے جائیں گے، توپھر بھلا کب پہنے، اوڑھے جائیں گے۔ تو چلیں، ذرا آج کی بزم سے بھی دو دو ہاتھ کرلیں۔ جس میں گہرے جامنی (Indigo) ڈارک ریڈ، تیز زرد او دبیز طلائی رنگوں نے گویا آگ سی دہکا رکھی ہے۔ ذرا ذیکھیے تو، را سِلک میں گہرے جامنی رنگ پہناوے کی موسم و ماحول سے کس قدر شان دار ہم آہنگی ہے، تو زرد اور سیاہ کےکامبی نیشن میں اسٹائلش پہناوا بھی بہت ہی بھلا لگ رہا ہے۔ سفید ٹرائوزر کے ساتھ گہرے سُرخ رنگ کی لانگ شرٹ ایک دل آویز انتخاب ہے، تو شاموز سلک کے نفیس و دیدہ زیب پہناوے کی تو بات ہی کیا ہے۔

اب اِن رنگ وا نداز کو دیکھ کر کوئی کہہ اُٹھے ؎ ’’دلِ فسردہ میں یوں تیری یاد آتی ہے…شبِ سیاہ میں جس طرح روشنی کی کرن…بڑے سُکون سے زلفیں سنوارنے والے…کسی کی زیست نہ بن جائے مستقل الجھن…یہ کس نے جھوم کے بستی میں لی ہے انگڑائی…فسوں طراز ہے یہ کس کارنگِ پیراہن۔‘‘، تو اِس میں ہرگز کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔