• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکیہ، اس وقت نیٹو میں امریکہ کا قریبی اتحادی ہونے کے علاوہ یورپی یونین کی مستقل رکنیت حاصل کرنےکا منتظر ہے چنانچہ امریکہ اور یورپی یونین کے چند ایک رکن ممالک ترکیہ سے حماس کی حمایت ختم کرنے اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن صدر ایردوان نے یورپی یونین کے دباؤ کو یکسر مسترد کردیا ہے۔

امریکہ کسی نہ کسی طریقے سے صدر ایردوان کو اقتدار سے ہٹانے میں مصروف رہا ہے ،اس نے پہلے ترکیہ میں فیتو دہشت گرد تنظیم کی پشت پناہی کرتے ہوئے ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی، پھر بائیڈن نے صدر منتخب ہونے سے قبل صدر ایردوان کو مختلف طریقے سے اقتدار سے ہٹانے کیلئے، ترکیہ کی اپوزیشن کی حمایت کرنے کا کھلا پیغام دیا۔ پھر بائیڈن نے ترکیہ کی جیل میں جاسوسی کے الزام میں قید پادری Brunson کی رہائی کیلئے ترکیہ پر دبائو ڈالا اور رہا نہ کرنے کی صورت میں ترکیہ کو سبق سکھانےکی دھمکی بھی دی۔اسی طرح یورپی یونین کے دس ممالک نے ترک بزنس مین عثمان کوالا کو رہا کروانے کیلئے ترکیہ پرشدید دباؤ ڈالا لیکن صدر ایردوان امریکہ اور یورپی یونین کی ان دھمکیوں سے ذرہ بھر بھی مرعوب نہ ہوئے بلکہ انہوں نے فوری طور پر ان دس ممالک کے سفیروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر جلا وطن کرنے کا حکم جاری کردیا تاہم ان ملکوںکی جانب سے معذرت کرنے پر معاملے کو بگڑنے سے روک لیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے ترکیہ آئے ہوئے اعلیٰ امریکی حکام نے تر کیہ کی حماس کی کھل کر حمایت کیے جانے پر تشو یش سے آگاہ توضرور کیا لیکن وہ صدر ایردوان کے موقف کو اچھی طرح جاننے کی وجہ سےترک حکام کوقائل کرنے میں ناکام رہے۔ امریکی انڈر سیکرٹری برائن نیلسن 9ہفتوں سے جاری حماس اسرائیل جنگ میں تر کیہ سے حماس کو فنڈز کی منتقلی کے شواہد تو پیش نہ کرسکے تاہم انہوں نے ماضی میں ترکیہ کی جانب سے حماس کو فنڈز فراہم کیے جانے کا الزام ضرور عائد کیا جسے ترک وزارتِ خارجہ نے یکسر مسترد کردیا ۔ یاد رہے صدر ایردوان بڑے واشگاف الفاظ میںکہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک حماس کو کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتا کیونکہ حماس فلسطین کی حقیقت ہے اور وہاں کی سیا سی جماعت ہے جو عام انتخابات جیت کر غزہ میں بر سرا قتدارآئی ہے ۔ صدر ایردوان نے کہا کہ ترکیہ کسی بھی ملک کو ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دے گا، تر کیہ کی خارجہ پالیسی ترک عوام کی توقعات اور مفادات کےمطابق ہی انقرہ میں مرتب کی جاتی ہے۔ صدر ایردوان نےامریکی حکام کے دورے سے قبل پارلیمنٹ میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے گروپ اجلاس میں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یا ہو کے بارے میں سخت بیان دیتے ہوئے یا ہو کو " غزہ کا قصاب" اور اسرائیل کو ایک" دہشت گرد ریاست " قرار دے چکے ہیں۔انہوں نے نیتن یا ہو کو عالمی عدالت کے روبرو پیش کرنے کیلئے اپنی تیاریوں سے بھی آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تقریباً 3 ہزار وکلاء نے دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت میں اس حوالے سے پہلے ہی سے درخواستیں دے رکھی ہیں ، جس میں بڑی تعداد میں ترک وکلاء اور ترک اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہیں جو اس کیس کی پیروی کریں گے۔ وہاں ہمیں یقین ہے جس طرح سربیہ اور کوسوو میں مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے"سربیہ قصاب" کرادزیچ کو دی ہیگ کی عالمی عدالت سے سزا دلوائی گئی تھی بالکل اسی طرح "غزہ کے قصاب" نیتن یا ہو کو نسل کشی کے الزام میں سزا دلوا کر ہی دم لیں گے۔ ہزاروں سال سے آباد فلسطینیوں کے مکانات، زمینوں اور دفاتر کو ناجائز طور پر اپنے قبضے میں لے رکھا ہے جسے کسی بھی صورت قابلِ قبول قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور ہم اس ریاستی دہشت گردی پرخاموش نہیں رہ سکتے۔ ہمارے بین الاقوامی رابطوں کا سب سے اہم ایجنڈا بلا شبہ غزہ کی جنگ ہے۔ صدر ایردوان نے اس وقت تک 50سے زائد عالمی رہنمائوں سے رابطہ کیا ہے ۔وہ رواں ہفتے 2 اہم دورے کر رہے ہیں، پہلے قطر اور پھر یونان کا دورہ کریں گے۔ قطر نے ترکیہ ہی کے تعاون سے اسرائیل اور حماس تنازع کو روکنےمیں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا اور اب وہ اس دورے کے دوران قطر کے امیر سے مستقل جنگ بندی کیلئے کیے جانے والے اقدامات پر تبادلہ خیال کریں گے جبکہ جمعرات 7 دسمبر کو یونان کے دورے میں غزہ کی صورتحال پر بھی غور کیا جائے گا۔

تازہ ترین