• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم خود کیا کر رہے ہیں؟ دودھ میں پانی، شہد میں شیرا، گھی میں کیمیکل مرغیوں کی انتڑیاں، ہلدی میں مصنوعی رنگ، سرخ مرچوں میں اینٹوں کا برادہ، کالی مرچ میں گھوڑے کا دانہ اور پپیتے کے بیج، جوس میں جعلی رنگ اور فلیورز، چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے، آٹے میں ریتی، چنے کے آٹے میں لکڑی کا برادہ، پھلوں میں میٹھے انجکشن، سبزیوں پر رنگ، پیٹرول میں گندا تیل، بچوں کی چیزوں میں زہر آلود مواد، بکرے کے گوشت کو پانی کے انجکشن لگا کر وزن زیادہ کرنا، بھینس کو دودھ بڑھانے کے ٹیکے لگانا، شوارمے کے گوشت میں مرے ہوئے کتے اور چوہے، شادیوں میں مری ہوئی مرغیوں کا گوشت، جھوٹ بول کر گدھے کا گوشت کھلایا جانا، منرل واٹر میں نلکے کا پانی، موبائل مارکیٹ میں جعلی اور کاپی فون، جعلی صابن، جعلی سرف، جعلی شیمپو مگر سب اوریجنل ٹیگ کے ساتھ، 2نمبر ادویات اصلی پیکنگ میں، ہسپتالوں میں جعلی ڈاکٹر، بازاروں میں بدنگاہی اور جھگڑے اور امتحانوں میں نقل، ناپ تول میں کمی، دوستی میں خود غرضی، محبت میں دھوکہ، ایمان میں منافقت، نوکری میں ناجائز سفارش اور رشوت،ب جلی میں ہیرا پھیری، بے حس چہرے، بےنماز پیشانیاں، شادی بیاہ میں شراب نوشی، مجرے اور فائرنگ، موبائل میں فحش تصاویر اور فلمیں، ٹی وی پر ننگے ناچ، بھائی بہنوں میں نفرتیں، ماں باپ کی عزت میں عدم تکریم، رشتے داروں میں قطع تعلقی، پڑوسیوں سے بدسلوکی، استادوں سے بدتمیزی، بغیر عمل کا علم، مساجد ویران، سینما گھر آباد، میاں بیوی میں نفرت، بچوں پر سختی، غربت کی آزمائش پر چوری، امیری میں تکبر، اپنے علم پر غرور، روزی میں حرام کی آمیزش، جھوٹ نیکی سمجھ کر بولنا، ڈکیتی، فراڈ، دھوکہ، رہزنی، عبادت میں ریا کاری، ایک بے سمت ہجوم، ایک ایسا ریوڑ جو 7عشروں میں بھی اپنی درست سمت کا تعین نہ کر سکا۔ ان تمام باتوں کے بعد میں حیرت زدہ ہوں کہ ہم صرف حکمرانوں کو غلط کہتے ہیں۔ کیا آپ نے نہیں سنا کہ ظالم اور جابر حکمران کب اور کیوں مسلط ہوتے ہیں۔ کیا ایک پل بھی دل اور ذہن نے یہ سوچا، یہ محسوس کیا کہ ہم خود کتنے نیک، پارسا اور متقی ہیں۔ پھر کہتے ہیں نہ جانے ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں۔ ہمیں کبھی اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ بس دوسروں میں عیب، دوسروں میں غلطیاں ڈھونڈتے ہماری عمریں گزر گئیں۔

ہماری انہی حرکتوں کی وجہ سے خود ساختہ مہنگائی نے عوام کیلئے جینے کو زندگی کے نام پر تہمت بنا دیا ہے۔ خبر ہے کہ صارفین کیلئے نومبر میں سال بہ سال گیس کی قیمتیں 520فیصد اور بجلی کی 34.95فیصد تک بڑھیں، جس کی وجہ سے مجموعی مہنگائی میں اضافہ ہوا اور یہ 29.2فیصد تک جا پہنچی۔ بنیادی ضروریات یعنی اشیائے خورو نوش کی مہنگائی شہری علاقوں میں 29.8فیصد اور دیہی علاقوں میں 29.2فیصد ریکارڈ کی گئی،جبکہ غیر غذائی مہنگائی شہری علاقوں میں 30.9فیصد اور دیہی علاقوں میں 25.9فیصد رہی۔ شہری علاقوں میں جن اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں سالانہ بنیادوں پر سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا، ان میں مصالحہ جات، گندم کا آٹا، چاول، پھلیاں، چائے، گڑ، چینی، مشروبات، آلو اور دال ماش شامل ہیں۔ نان فوڈ کیٹگری میں جن اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا،ان میں گیس چارجز، درسی کتب، اسٹیشنری، صابن، سرف، ماچس، مواصلاتی آلات، گھریلو ساز و سامان، بجلی چارجز اور ادویات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تیل، گیس، بجلی اور ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو مہنگائی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، جس کی اپنی وجوہات ہیں، تاہم نااہلی یہ ہے کہ جب یہی چیزیں سستی ہوتی ہیں تب مہنگائی میں کمی نہیں آتی۔ ہمارے ہاں خود ساختہ مہنگائی اصل اور بڑا مسئلہ ہے۔ ایک بار جو چیز مہنگی ہو جاتی ہے پھر اس کی قیمت کم نہیں ہوتی، مثال کے طور پر تیل سستا ہوا تو ٹرانسپورٹ کے کرائے کم نہ ہوئے۔ حکومت عوام کو سبسڈی نہیں دے سکتی تو کم از کم خود ساختہ مہنگائی تو ختم کرائے۔ یاد رکھنے کی بات وہ ہے جو عالمی بینک کہہ رہا ہے کہ ”پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ روشن مستقبل کیلئے مشکل فیصلوں پر مبنی سخت پالیسیاں اختیار کرے گا یا ماضی کی ڈگرپر چلے گا“۔ ہمیں اب اشرافیہ کی مراعات بند کر کے وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑ نا ہوگا کہ یہی ہماری بقاکا راستہ ہے۔

اب عوام پر ایک اور ستم ڈھایا گیا ہے۔ نیپراکی رپورٹ میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی طرف سے اوور بلنگ، میٹر ریڈنگ کی تصویر نہ لینے اور خراب میٹر تبدیل نہ کرنے کی وجہ سے اوسط کے حساب سے بل بھیجے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق ملک میں بجلی کی 10تقسیم کار کمپنیوں میں سے ایک بھی ایسی نہیں جو 100فیصد درست بلنگ کر رہی ہو۔ تقسیم کار کمپنیوں کی اوور بلنگ کی وجہ سے ایک کروڑ 37لاکھ سے زائد صارفین متاثر ہو چکے ہیں۔ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی اس روش کی وجہ سے لائف لائن صارفین جو ماہانہ 100یونٹ تک بجلی استعمال کرتے ہیں۔ وہ بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ یہ انکشاف ایسے وقت ہوا ہے جب بجلی کے صارفین کی جانب سے یہ شکایت عام ہو چکی ہے کہ انہیں غلط ریڈنگ ڈال کر بھاری بل بھیجے جاتے ہیں۔ قانون کے مطابق میٹر ریڈنگ لازمی طور پر 30دن سے کم یازیادہ سے زیادہ 30دن تک ہونی چاہیے، تاہم بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں 30دن سے زائد مدت کی بلنگ کر رہی ہیں جس سے پرو ٹیکٹڈ صارفین کے سلیب تبدیل ہونے سے ان سے زیادہ شرح سلیب کے چارجز وصول کئے جا رہے ہیں۔ گو کہ نیپرا نے ڈسکوز کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دیا ہے لیکن یہ صرف بیان تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ تقسیم کار کمپنیوں کے اس خلاف قانون اقدام، جو یقیناً لاعلمی میں سرزد نہیں ہوتا، پر تقسیم کار کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ بجلی صارفین کے ساتھ اس دیدہ ودانستہ دھوکہ دہی سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔

تازہ ترین