مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کا یہ سوال بلاشبہ جواب طلب ہے کہ ان کی سابقہ تین حکومتوں کو اچھی کارکردگی کے باوجود کیوں ختم کیا گیا؟ ہفتے کو لاہور میں پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں کے اجلاس سے خطاب میں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہر دفعہ ہم نے اچھے کام کیے لیکن ہر دفعہ ہمیں نکال دیا گیا، پتا لگنا چاہئے کہ 93ء اور 99ء میں ہمیں کیوں نکالا گیا، ہم نے کہا کہ کارگل لڑائی نہیں ہونی چاہئے تھی کیا اسلئے نکالا گیا؟ وقت ثابت کررہا ہے کہ ہم صحیح تھے وہ فیصلہ بھی ہمارا صحیح تھا، ملک کی بات آتی ہے تو ہم پیچھے نہیں ہٹتے، ہم نے ایٹمی دھماکے کئے اور پاکستان مضبوط ہوگیا، ہم نے معیشت، دفاع اور خارجہ ہر فرنٹ پر کارکردگی دکھائی، ہمارے دور میں بھارت کے دو وزیراعظم مودی اور واجپائی پاکستان آئے۔ بھارت اورافغانستان سے تعلقات بہتر بنانے اور چین اور ایران سے مزید مستحکم کرنے کی ضرورت کا اظہار کرتے ہوئے قائد مسلم لیگ (ن) نے مزید کہا کہ قوم نے پچھلے چارسال میں بہت مشکل دور دیکھا، ہمارے دور میں ہر لحاظ سے معاشرہ آگے بڑھ رہا تھا لیکن کچھ کردار ایسے آئے جنہوں نے دوڑتے پاکستان کو ٹھپ کرکے رکھ دیا۔ معاشی ابتری 2019ء سے شروع ہوئی اور 2022ء تک ملک میں ہرچیز کا بھٹابیٹھ گیا تھا، 2013ء سے 2017ء تک ہمارے دور میں ملک ترقی کر رہا تھا لیکن ایک اچھی حکومت کو ختم کرکے ملک ایک اناڑی کے حوالے کر دیا گیا ۔ جن لوگوں نے ملک کو اس حال پر پہنچایا انکا محاسبہ ہونا چاہئے، ان سے پوچھا جانا چاہیے آپ نے ایسا کیوں کیا؟ میاں نواز شریف کی سابقہ حکومتوں کے خاتمے کا اگر اس کے ذمے داروں کے پاس کوئی معقول جواب ہے تو قوم کے سامنے آنا چاہیے اور اگر عوام کی حمایت یافتہ یہ آئینی حکومتیں کسی جائز سبب کے بغیر ختم کی گئیں تو جن عناصر نے ایسا کیا انکا بے لاگ ، شفاف اور غیرجانبدارانہ احتساب ہونا چاہئے کیونکہ ماضی کی غلطیوں کے تعین اور اس کے ذمے داروں کے احتساب کے بغیر ایک روشن اور محفوظ مستقبل کی جانب پیش قدمی ممکن نہیں۔ یہ امر خوش آئند اور اطمینان بخش ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ میں اس عمل کا آغاز ہوگیا ہے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے عدالتی فیصلے کیخلاف صدارتی ریفرنس سمیت کئی معاملات آنے والے دنوں میں زیر سماعت آرہے ہیں۔ میاں نواز شریف کی 2017ء میں برطرفی اور تاحیات نااہلی کے عدالتی فیصلے اور انکے پیچھے کارفرما بعض اعلیٰ عسکری اور عدالتی شخصیات کا گٹھ جوڑ بھی بڑی حد تک بے نقاب ہوچکا ہے لیکن انکے ذمے داروں کا محاسبہ بھی ناگزیر ہے تاکہ آئندہ کیلئے ایسی وارداتوں کا مکمل سدباب ہوسکے۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میںمئی 1998ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے چند ہی روز بعد پاکستان کی شاندار جوابی کارروائی کے نتیجے میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور آمد، مینار پاکستان پر حاضری، دوست بدلے جاسکتے ہیں مگر پڑوسی نہیں کا بیانیہ اپناتے ہوئے آئندہ پاک بھارت جنگ نہ ہونے کی یقین دہانی اور کشمیر کے سیاسی حل پر پیشرفت نہایت امید افزا تھی لیکن فوج کی بیشتر قیادت اور وزیر اعظم کو بھی بے خبر رکھ کر شروع کی جانیوالی کارگل کی مہم جوئی نے پاک بھارت تعلقات کی مستقل بہتری کے امکانات کو ملیامیٹ کردیا اور جب سیاسی قیادت نے اس کی جوابدہی چاہی تو اسکا تختہ الٹ دیا گیا۔ طیارہ سازش کا بے بنیاد کیس بنا کر منتخب وزیر اعظم کو جیل کی کال کوٹھری میں ڈال دیا گیا اور مبینہ طور پر کوشش کی گئی کہ عدالت سے پھانسی کی سزا دلوائی جائے۔ ملک کو آئندہ ایسے سانحات سے بچانے کیلئے کسی تحقیقاتی کمیشن کے ذریعے مستند حقائق کا قوم کے سامنے لایا جانا اور ذمے داروں کا بے نقاب کیا جانا ضروری ہے اور اس حوالے سے نواز شریف کا مطالبہ بالکل جائز اور برحق ہے۔