اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچ قوم باوقار، محسن، مہذب، مہمان نواز، بہادر، جفاکش اور انتہائی محب وطن ہے اور پورے پاکستان کا فخر اور ماتھے کا جھومر ہیں لیکن بلوچستان میں موجود قدرتی ذخائر پر قبضہ کرنے کی غرض سے اس علاقہ کو شورش زدہ بنانے میں بھارت اور افغانستان سمیت پاکستان دشمن ممالک اور قوتوں کا بھرپور کردار ہے، پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لئے صوبے میں دوسرے علاقوں سے آکر آباد ہونے یا آباد کئے جانے والے 5 سے 8 فیصد غیر بلوچ لوگوں نے بھاری معاوضوں اور پر تعیش زندگی کی لالچ میں پاکستان کے خلاف ورغلانے میں کامیاب ہوئے اور ان ورغلائے گئے غیر بلوچوں نے بنیادی حقوق کی عدم فراہمی کے غیرمنطقی دلائل پر 2000 ء کے اوائل میں علیحدگی کے نعرے کے ساتھ جدوجہد کے لئے بلوچستان کے پہاڑوں پر بسیرا کیا اور بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور افغان طالبان کی سرپرستی میں ریاست کے خلاف’’بغاوت‘‘ کا آغاز کیا اور دشمن قوتوں کے عزائم کو تقویت پہنچائی۔ یہی وجہ ہے کہ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے نقشے میں بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ دکھایا گیا ہے جس کی بنیاد پر شرپسندی اور ریاست دشمنی کی سیاست پر یقین رکھنے والے عمران خان جو پاکستان دشمنوں کے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کی توثیق کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے تین ٹکڑے ہوں گے۔
بلوچستان لبریشن آرمی پہلی تنظیم تھی جس کا قیام پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی ہو گیا تھا جو ابتداء میں ہی بھارتی تسلط کا شکار ہوئی اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے منصوبوں کے مطابق پاکستان کے خلاف بلوچستان میں نفرتیں پھیلانے اور بلوچ قوم کو گمراہ کرنے کی کوششیں کرنے لگے جو اس لئے کارگر ثابت نہیں بلوچ پاکستان سے محبت کرتے ہیں خصوصاً اس لئے بلوچ قوم BLA کے باغیوں کو بلوچ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں اور ماہ رنگ بلوچ سمیت انہیں ’’لانگہو‘‘ قوم قرار دیتے ہیں جو بلوچی نہیں بلکہ بھارت کے علاوہ بلوچستان کے اردگرد کے نواحی علاقوں سے نقل مکانی کر کے پہلے بلوچستان کے ملحقہ پہاڑوں پر آباد ہوئے اور پھر رفتہ رفتہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ اصل بلوچوں کا کہنا ہے کہ’’لانگہو‘‘ قوم میں کوئی ایسی خوبی موجود نہیں جو بلوچ قوم کی شناخت ہے، لانگہو قوم میں بلوچوں کے برعکس وقار، بہادر، جفاکشی، جرات مندی، تہذیب، مہمان نوازی، احسان مندی اور حب وطنی کی کوئی رمق موجود نہیں۔ ماہ رنگ بلوچ کے بارے میں بھی بلوچوں کا یہی خیال ہے کہ اسےبلوچ کہنا یا ماننا بلوچوں کی شان کے خلاف ہے، کیونکہ اس کا باپ عبدالغفار جو بی۔ایل۔اے کا دہشتگرد تھا اپنے نام کے ساتھ بلوچ نہیں بلکہ لانگہو لگاتا تھا جو لیڈرشپ کے حوالے سے BLA کی اندرونی لڑائی میں مارا گیا تھا، لیکن ماہ رنگ نے اپنی ذات اور قومیت تبدیل کرلی اور اب ’’ماہ رنگ لانگہو‘‘ بلوچوں کی شناخت استعمال کر کے پاکستان دشمنوں خصوصاً بھارت کے ایجنڈے کی تکمیل کر کے پاکستان کی تقسیم کے خواب دیکھ رہی ہے۔ لانگہو قوم بزدل قوم ہے اور نہتے لوگوں، عورتوں، معصوم بچوں اور بزرگوں خصوصاً بلوچوں کو نشانہ بنا کر اپنی ’’بہادری‘‘ کے جھنڈے گاڑھنے پرفخر کرتی ہے۔ کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں ریلوے کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے والے حملوں میں ملوث رہی، ریل کی پٹڑیوں کو دھماکوں سےاڑانا، مسافروں کو نقصان پہنچانا اور لسانی، صوبائی منافرت کو ہوا دینا اور سی پیک اور چائنیز کو نشانہ بنانا ان کی نام نہاد’’جدوجہد‘‘ کی بنیاد ہے۔ اصل بلوچ BLA کے علیحدگی پسند لانگہوؤں کو بھارت نواز قرار دیتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ صرف سیکڑوں کی تعداد میں یہ لانگہو جن کا بلوچوں سے کوئی تعلق نہیں، افغان بارڈر کے قریب بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور دہشتگرد تنظیم کی جانب سے قائم تربیتی کیمپوں میں تخریب کاری کی تربیت حاصل کرتے ہیں اور تربیت کے دوران لانگہوؤں کو ڈالروں میں بھاری معاوضوں کے علاوہ ’’عیاشی‘‘ کے تمام لوازمات اور مواقع مہیا کئے جاتے ہیں۔ اس تربیت کے لئے افغان حکومت پاکستان کی سلامتی کے خلاف وسائل اور سرزمین مہیا کرتی ہے کیونکہ افغانوں نے گزشتہ 25 برسوں سے زائد عرصہ تک افغان مہاجرین کے ساتھ ان کے مشکل ترین اوقات میں سہارا دینے اور انہیں پالنے پوسنے کے احسانات کا بدلہ تو چکانا تھا اوربدلہ چکانے کا اس سے بہتر موقع میسر نہیں آ سکتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس بار بھی امن کے نوبل انعام کے لئے ماہ رنگ لانگہو، کو بھی ’’پاکستان دشمن کو یہ‘‘ سے ’’امن‘‘ کے اس اعلیٰ ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا ہے۔ ماہ رنگ لانگہو کو یہ اعلیٰ مقام دلانے میں BLA کے حامی بعض خودغرض، گمراہ اور موقع پرست و صحافیوں اور دانشوروں کی ’’خدمات‘‘ شامل ہیں جنہوں نے عالمی شہرت کی لالچ میں پاکستان کی سلامتی کی قیمت پر ملک کی بنیادوں میں بارود بھرنے کی کوشش کی۔