ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے جاری کردہ قومی کرپشن سروے 2023 ءسے یہ تشویشناک بات سامنے آئی ہے کہ عدلیہ پاکستان کے تین کرپٹ ترین ادروں میں سے ایک ہے۔ پولیس سب سے زیادہ کرپٹ ہے، اسکے بعد ٹھیکے دینے اور کنٹریکٹ کرنے کا شعبہ ہے اور پھر عدلیہ۔ تعلیم اور صحت کے شعبے بالترتیب چوتھے اور پانچویں کرپٹ ترین شعبے ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قولِ فیصل ہے کہ ’’معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے لیکن نا انصافی کے ساتھ نہیں‘‘عدل کے معنی انصاف، داد گستری اور سب کیلئے یکساں قانون کے ہیں۔ اسے یقینی بنانے کیلئے پوری دنیا میں مختلف ادارے کام کر رہے ہیں،جن میں سے دو بنیادی اہمیت کے حامل اداروں میں سے ایک پولیس ہے اور دوسرا عدلیہ۔اس سے زیادہ باعث شرم اور کیا ہو گا کہ یہی دو ادارے جن کی غرض و غایت ہی انصاف کی فراہمی ہے، بدعنوانی میں ملوث ہی نہیں بتائے جا رہے بلکہ اس ضمن میں سرِ فہرست بھی ہیں۔معاشرے میں انصاف کی عدم فراہمی کا سلسلہ پولیس سے شروع ہوتا ہے،جہاں اپنا بنیادی حق یعنی ایف آئی آر تک درج کروانے کیلئے یا تو رشوت دینا پڑتی ہے یا سفارش سے کام بنتا ہے اور عام آدمی اس سلسلے میں اتنا خوار ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر وہ اپنے نقصان کی رپورٹ درج کروانے تک کو لاحاصل خیال کرتے ہوئے تھانے کا رخ ہی نہیں کرتا۔ حالات اس حد تک ناگفتہ بہ ہیں کہ کچھ عرصہ قبل مطالبہ کیا گیا تھا کہ پولیس کو عدلیہ کی ماتحتی میں دیدیا جائے لیکن جب حالت یہ ہے کہ عدلیہ کی بد عنوانی پولیس کے بعد تیسرے درجے پر آچکی ہے تو ایسے کسی اقدام کا کیا فائدہ۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو ماضی کی طرح اب بھی جھوٹ کا پلندہ قرار دیا جا سکتا ہے تاہم اس دعوے کی حقیقت تھانوں اور ماتحت عدلیہ کی عملی صورت حال سے عیاں ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ قانون ساز اس طرف فوری اور بھرپور توجہ دیں ورنہ سماج کے تاروپود بکھرتے دیر نہ لگے گی۔