• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

تھی جو خوشبو صبا کی چادر میں ... وہ تمہاری ہی شال کی ہوگی

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: منال منہاس

شالز: الجبار شالز، اعظم کلاتھ مارکیٹ، لاہور

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

کوآرڈی نیٹر: مظہر علی

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

اوپر تلے دو تین پوسٹس دیکھیں، جو شیئر تو ہالی وُڈ ایکٹرز کی تصاویر کے ساتھ ہوئیں، لیکن حقیقتاً کس کے خیالات و الفاظ ہیں،یقین سےکچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ایک تو یہ کہ ’’زندگی بہت مختصر ہے۔ اِسے غیر ضروری، فضول باتوں میں الجھنے، منفی، تکلیف دہ رویّے برداشت کرنے اور بے سبب کسی بھی قسم کی یاوہ گوئی کا حصّہ بننے میں ہرگز ضایع نہ کریں۔ اپنی زندگی سے جعلی، ڈھونگی اور زہریلے لوگوں کو فوراً سے پیش تر بے دخل کردیں۔‘‘ 

دوسری یہ کہ ’’آپ کی زندگی میں کچھ لوگ ضرور ہوں گے، جو کبھی، کسی بھی معاملے میں آپ کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آئیں گے اور صرف اور صرف اِس وجہ سے کہ ’’آپ، آپ ہیں‘‘ اِسی طرح آپ کی زندگی میں کچھ لوگ ایسے بھی لازماً ہوں گے، جو ہمیشہ، ہر معاملے میں آپ کے ساتھ، آپ کی پُشت پر کھڑے ہوں گے اور وہ بھی صرف اِس لیے کہ ’’آپ، آپ ہیں‘‘، تو خدا کے لیے اپنوں اور غیروں، دوستوں اور دشمنوں میں تفریق کرنا سیکھیں۔‘‘ اور تیسری یہ کہ ’’میرا مقابلہ کسی سے نہیں ہے۔ 

مَیں ایسے کسی کھیل کا حصّہ نہیں بننا چاہتا، جو ہار جیت کے فیصلے، کسی نمبر وَن، نمبر ٹو، نمبر تِھری کی دوڑ کا محتاج ہو۔ میرا مقابلہ، خُود میرے ساتھ ہے اور مَیں صرف اور صرف اُس انسان سے بہتر بننے کی کوشش کرتا ہوں، جو مَیں کل تھا۔‘‘ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے ناں، ہم جو سوچ رہے ہوتے ہیں، جو محسوس کرتےہیں، مگر بیان نہیں کر پاتے، کوئی دوسرا بعینیہ ان جذبات و احساسات کو الفاظ کی شکل دے ڈالتا ہےاور یہ عموماً خواتین کے ساتھ زیادہ ہوتا ہے۔ بہت ممکن ہے، مندرجہ بالا تین پوسٹس کی کچھ باتیں، کئی لوگوں کے دل کی آواز ہوں۔ 

وہ کیا ہے کہ ماہِ دسمبر کے ساتھ بےشمار مِیمز تو منسوب کی جاتی ہیں، لیکن خُود اپنےساتھ رہنے، وقت گزارنے اور جو سال بَھر سوچنے سمجھنے، کر گزرنے کا وقت ملا، نہ حوصلہ ہوا، یہی ’’دسمبریں رُت‘‘ اُن سب ارادوں، فیصلوں پرعمل درآمد پہ آمادہ کیے دیتی ہے۔ وہ شمیم حنفی کا شعر ہے ناں ؎ شام نے برف پہن رکھی تھی، روشنیاں بھی ٹھنڈی تھیں…مَیں اس ٹھنڈک سے گھبرا کر اپنی آگ میں جلنے لگا۔ اور پھر وہ بھی کہ ؎ الائو بن کے دسمبر کی سرد راتوں میں…تیرا خیال میرے طاقچوں میں رہتا ہے…بچا کے خُود کو گزرنا محال لگتا ہے…تمام شہر میرے راستوں میں رہتا ہے۔ تو خُود کو بہت سا وقت ضرور دیں، لیکن یہ سارا وقت صرف سوچوں، یادوں میں کھوئے رہ کے نہیں گزرنا چاہیے، موسمِ سرما کی جو چار دن کی چاندنی ہے، اُس کے دیگر لوازمات (گرم اونی پہناووں، خشک میوہ جات، موسمی پھل، سبزیوں اور خاص سردی کے کھاجوں وغیرہ) سے بھی خُوب جی بھر کے لُطف اندوز ہوں۔

گرچہ دانیال طریر کا کہنا ہے کہ ؎ تیس دن تک اِسی دیوار پہ لٹکے گا یہ عکس…ختم اِک دن میں دسمبر نہیں ہونے والا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ وقت اب کچھ ایسا بےلگام، بےدید ہوچُکا ہےکہ اِس کے آگے جتنے مرضی بند باندھو، یہ اب لمحہ بھر کو بھی نہیں ٹھہرتا، اچھا ہو یا بُرا، کیسے مُٹھیوں سے پھسلتا جاتا ہے، پتا ہی نہیں چلتا۔ اور…دسمبر بھی بس اب رخصت ہونے ہی کو ہے۔ تو چلیں، اس رُت میں خواتین کے پسندیدہ ترین انداز، ہر طرح کے پہناووں کے ساتھ گرم اونی شالز کی ہم آمیزی سے تو مستفید ہولیں۔ 

ذرا دیکھیں، کٹ ورک اور ستارہ ورک سے مزیّن خُوب صُورت اسکن رنگ پشمینہ شال کیسا نرم و گرم، ممتا کی آغوش سا احساس دے رہی ہے۔ ہلکے سُرمئی رنگ کی گتھواں سے پرنٹ سے آراستہ کھدّر شال کا انداز خاصا روایتی ہے، تو گہرے نیلے رنگ کی پھلکاری شال کے حُسن و جاذبیت کا بھی جواب نہیں۔ ٹی پنک رنگ کی لائٹ سی ایمبرائڈرڈ کشمیری پشمینہ شال کا تاثر خُوب نرم و گداز سا ہے، تو سیاہ رنگ مخملیں شال پر طلائی رنگ ایمبرائڈری کے بھی کیا ہی کہنے اور عنّابی رنگ تھریڈورک سےمُرصّع ویلویٹ شال تو گویا ایک سدا بہار انداز ہے۔

اپنی زندگی سے جعلی، ڈھونگی، زہریلے لوگوں کو ضرور بےدخل کریں، اپنوں، غیروں میں فرق کرنالازماً سیکھیں، خُود کو ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش بھی کرتی رہیں، مگر ساتھ سرما کی سُرمگیں شاموں سے خوب حَظ اُٹھانے کو ہماری نرم و گرم، دل آویز سی شالز میں سے بھی جو چاہیں، چُن لیں کہ غالباًجون ایلیا نے ایسی ہی شالز کے لیےکہا تھا ؎ زندگی ہے، خیال کی اِک بات…جو کسی بےخیال کی ہوگی…تھی جو خُوشبو صبا کی چادر میں…وہ تمہاری ہی شال کی ہوگی۔ اور نوشی گیلانی نے بھی کہ ؎ کسی سے تیرے آنے کی سرگوشی کو سُنتے ہی…مَیں نے کتنے پھول چُنے اور اپنی شال میں رکھے۔ جب کہ زبیر رضوی نے تو یہ کہہ کے بات ہی ختم کردی کہ ؎ اوڑھی جو اُس نے شال تو پشمینہ جی اُٹھا۔