انسانی حقوق کی پامالی پر مبنی فاشسٹ ہندو تو ا نظریہ اور نریندر مودی کی مسلم دشمن پالیسی کے زیر اثر، اقوام متحدہ کی واضح قراردادوں، دو طرفہ معاہدوں، عالمی قوانین اور بھارتی آئین کو نظرانداز کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ نے 20سے زائد درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے یہ انوکھی منطق اپنائی ہے کہ آئین کی دفعہ 370 جس کے تحت یہ درجہ دیا گیا تھا عارضی تھی جس کی منسوخی، ریاست کی داخلی خودمختاری کا خاتمہ اور بھارت میں اس کا مکمل ادغام درست ہے۔ عدالتی فیصلے سے پہلے کشمیری عوام کے شدید ردعمل کو کچلنے کیلئے پوری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج تعینات کر دی گئی۔ جلسے جلوسوں پر پابندی سخت کر دی گئیں۔ سابق کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت درجنوں کشمیری رہنماؤں کو گرفتار یا گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں فوجی چوکیاں قائم کر دی گئیں۔ سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے صرف فوج کی بکتر بند گاڑیوں کو گشت پر لگا دیا گیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مقبوضہ ریاست کی قیادت اور عوام نے اس منصفانہ فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ حریت کانفرنس، نیشنل کانفرنس اور دوسری سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دیا ہے اور آزادی کی جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت پاکستان اور سیاسی قیادت نے بھی اس متنازعہ فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ بھارت اس طرح کا یک طرفہ اقدام نہیں کر سکتا۔ وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے فیصلے کو اقوام متحدہ سمیت تمام متعلقہ عالمی اداروں میں اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر مملکت ، نگران وزیر اعظم ، سیاسی جماعتوں کے قائدین،رائے عامہ کے رہنمائوں اور عوام نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو انصاف کے تقاضوں اور عالمی اداروں کی قراردادوں اور فیصلوں کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ متنازعہ فیصلہ متوقع تھا مگر موہوم سی امید تھی کہ شایدبھارتی ججوں کا ضمیر جاگ اٹھے اور وہ کشمیری عوام کی خواہشات کو ملحوظ رکھیں مگر ثابت ہوا ہے کہ مسلم دشمنی وہاں سب کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں، یہ فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ کے دامن پر انتہائی بدنما داغ ہے۔ عدالت نے اپنے ہی آئین کی غلط تشریح کر کے آنے والے انتخابات میں نریندرمودی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کشمیری عوام کو حق استصواب دینے کا پابند ہے اور پاکستان کی شراکت کے بغیر اس معاملے میں کوئی یکطرفہ فیصلے نہیں کر سکتا، بھارتی عدالت کے متعصبانہ فیصلے کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں شدید ردعمل اور احتجاجی مظاہرے اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ لداخ سمیت جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ جبری اور غیر قانونی ہے جسے کشمیری عوام کبھی قبول نہیں کریں گے۔مقبوضہ کشمیر کے بھارت نواز لیڈر بھی اب اپنے ماضی پر پچھتا رہے ہیں چنانچہ سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ ، محبوبہ مفتی، بھارتی پارلیمنٹ کے ارکان غلام نبی آزاد اور دوسرے رہنمائوں نے بھارتی سپریم کورٹ کے غیر منصفانہ فیصلے کی شدید مذمت کی ہے اور آزادی کی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ آزاد کشمیر میں بھی اس فیصلے کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ تنازع کشمیر ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کا واحد حل سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق آزادانہ رائے شماری ہے جس کے ذریعے کشمیری عوام کو پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا حق حاصل ہے۔ جب تک اس قرارداد پر عمل نہیں ہوتا، بھارت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم نہیں کر سکتا نہ ہی بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی حیثیت ہے۔