اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کالعدم قرار دے کر انہیں باعزت بری کر دیا۔ انکے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس نیب کی جانب سے واپس لیے جانے کی وجہ سے پہلے ہی ختم ہوچکا ہے۔ اپیلوں کی سماعت کے دوران واضح ہوا کہ دونوں ہی مقدمات میں سابق وزیر اعظم پر لگائے گئے الزامات کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا ۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں انہیں سزا سنانے والی عدالت نے اپنے فیصلے میں خود تسلیم کیا تھا کہ نواز شریف کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا جبکہ العزیزیہ ریفرنس کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران نیب کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے کسی ثبوت نہیں بلکہ محض اپنے تجزیے کی بنیاد پر نواز شریف کو العزیزیہ کا اصل مالک قرار دیا تھا۔ لہٰذا چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جب جے آئی ٹی سربراہ خود کہہ رہے ہیں انکے پاس ملکیت ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں، سب مفروضوں پر مبنی ہے تو مفروضے پر تو سزا نہیں بنتی۔ اس طرح نواز شریف کی منتخب آئینی حکومت کے خاتمے کیلئے 2014ء کے دھرنے سے شروع ہو کر پاناما پیپرز کیس میں بیٹے کی کمپنی سے وصول نہ کی جانے والی تنخواہ کو حسابات میں ظاہر نہ کرنے کی پاداش میں ملنے والی تاحیات نااہلی کی سزا کے ساتھ کرپشن کے تین کیسوں میں بنائی جانے والی جے آئی ٹی کی رپورٹوں کی بنیاد پر نیب ریفرنسوں کی کہانی اختتام کو پہنچی جس کے بعد ان کی نااہلی کے فیصلے کے برقرار رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا ۔ تاہم ملک میں سیاسی و جمہوری استحکام کو یقینی بنانے کی خاطر ان عناصر کا احتساب کے کٹہرے میں لایا جانا انتہائی ضروری جنہوں نے واضح شواہد کے مطابق ایک منتخب عوامی و جمہوری حکومت کے خاتمے کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی اور اسے اپنے مطلوبہ نتیجے تک پہنچایا۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998